پاناما لیکس پر ترمیمی درخواست سپریم کورٹ کے کہنے پر جمع کرائی، سراج الحق

منگل 25 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جماعت اسلامی نے پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا، جماعت اسلامی نے اپنے جواب میں لکھاکہ پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کو مقدمے میں شامل کرنے کے بجائے صرف پبلک آفس ہولڈرز کو شامل کرنے کی درخواست سپریم کورٹ کے کہنے پر دائر کی گئی تھی، کیونکہ سپریم کورٹ نے اپنی ایبزرویشن میں بتایاکہ تمام افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں سالوں لگ جائیں گے اس لیے درخواست کو پبلک آفس ہولڈرز تک محدود کیا جائے۔

جماعت اسلامی نے پاناما کیس میں جواب جمع کراتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ترمیمی درخواست میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کارروائی کی استدعا سپریم کورٹ کے کہنے پر کی گئی تھی کیونکہ سپریم کورٹ نے آبزروو کیا تھاکہ پانامہ میں سب کے خلاف کارروائی میں سالوں لگ جائیں گے۔

امیر جماعت سراج الحق نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ جماعت اسلامی کی پہلی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ پاناما اسکینڈل میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے تاہم بعد میں انہوں نے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے بعد اس میں ترمیم کی۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ جس طرح پاناما اسکینڈل میں نام کی وجہ سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا، اسی طرح اس میں شامل دیگر افراد کے خلاف بھی پاناما فیصلے کی روشنی میں کارروائی کی جائے۔

اپنے جواب میں امیر جماعت اسلامی نے استدعا کی ہے کہ پاناما اسکینڈل میں شامل تمام لوگوں کے خلاف تحقیقات کے لئے ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کے افسران پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے جو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائے۔

جواب میں کہا گیا کہ مذکورہ اداروں کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی تحقیقات سے مذکورہ اداروں کی کام کرنے کی صلاحیت کسی طور متاثر نہیں ہو گی اور سپریم کورٹ پاناما فیصلے میں نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر کے کردار سے متعلق بات کر چکی ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے پاناما اسکینڈل کے باقی ملزمان کے خلاف کارروائی کے لئے نیب اور ایف آئی اے سے رجوع کیا تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp