کبھی کبھی سوچتا ہوں اس ملک کی سیاست کبھی پُر سکون نہیں ہو سکتی۔ ہر دم تماشہ جاری رہے گا اور عوام اسی آس و امید پر وقت گزار دے گی کہ ہمارے دن بھی کبھی بدلیں گے۔ ویسے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے اہم وزیر اور لیگی رہنما بھی کچھ اسی قسم کی گفتگو کر رہے تھے، جب میں نے بے ساختہ سوال کیا کہ میاں نواز شریف کب واپس آئیں گے۔ ان کا جواب تھا آنا تو اگست کے پہلے ہفتے میں طے تھا مگر زرداری نے چال چل دی ہے۔ اب امکان ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے پر فیصلہ ہو گا۔ زرداری کی چال کے حوالے سے جب میں نے پوچھا تو انہوں کے کہا کہ پیپلزپارٹی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں نے نواز شریف کے کیسز کے فیصلوں میں تاخیر کی کوشش کی تھی تاکہ وہ وقت پر پاکستان واپس آ کر الیکشن کے حوالے سے اپنی جماعت کے فیصلے نا کر سکیں ۔
میں نے پوچھا کہ اگر اعتماد کا اس قدر فقدان ہے تو پھر سیٹ ایڈجسمنٹ کیسے ہو گی جس کی باتیں چل رہی ہیں اس پر جواب اہم تھا۔ وقاص صاحب آپ کو کیا لگتا ہے ہم اپنی سیٹیں یونہی انہیں اٹھا کر دے دیں گے۔ ملتان میں سیٹ ایڈجسمنٹ ہو گی، کائرہ والی سیٹ پر ہو گی کیوں کہ شاید وہاں جعفر اقبال صوبائی نشست پر الیکشن لڑیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ندیم افضل چن کے حلقے میں بھی سیٹ ایڈجسمنٹ ہو گی تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
ہم قومی کی 10 اور صوبائی کی 15-20 نشستوں پر ہی سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کریں گے باقی پنجاب بھی ہمارا وفاق بھی ہماراہی ہوگا۔ یہ الفاظ ذرا سخت لہجے میں تھے اور ہاتھ کی حرکت بھی بتا رہی تھی کہ میدان سجے گا اور بھرپور سجے گا۔
میں نے سوال کیا نواز شریف اگلا وزیراعظم ہو گا؟ اس پر چند لمحے خاموشی کے بعد ان کا جواب تھا اگر نواز شریف وزیراعظم ہوا تو مریم نواز ہماری وزیرخارجہ ہو گی۔ اس جواب نے دنگ کر دیا میں نے ساتھ ہی اگلا سوال کیا کہ ” اگر” کو یقینی کیسے بنایا جائے گا جس پر ان کا جواب تھا یہ آپ ستمبر میں دیکھ لیں گے۔ میں سمجھ گیا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی رخصتی کا انتظار ہو رہا ہے۔
لیکن پھر بھی مریم نواز بطور وزیر خارجہ۔ مجھے ہضم نہیں ہوئی ان کی یہ بات، گزشتہ کافی دنوں سے میرے پاس یہ اطلاع ہے کہ پنجاب میں اگر ن لیگ اکثریت حاصل کرتی ہے تو اس کی وزارت اعلی کے امیدوار ملک احمد خان ہوں گے۔ میں نے پتہ تو اسی طرح پھینکا مگر وزیر صاحب نے جواب نا دیا اور بولے ہم اب پنجاب میں کوئی بزدار لے کر آئیں گے اور میرا شک یقین میں بدل گیا کہ اب کچھ ایسا ہی ہو گا۔
اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اور معاملات پر سوال کو گول کر گئے مگر پنجابی میں جواب دیا کہ ” ہن او گلان نہیں رہیاں “۔ وضاحت کچھ اس طرح کی کہ ایک پیج اب ریاست کے ساتھ ہے کسی جماعت کے ساتھ نہیں۔ لیکن اب انصاف ہو گا سب کے ساتھ جن جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ بھی اہم تھا۔ میری چائے پہلے ہی ٹھنڈی ہو چکی تھی، میں نے کپ نیچے رکھا اور سوال کیا، وہ کیسے تو انہوں نے کہا جن کو جس طرح نکالا گیا اسی طرح عزت کے ساتھ واپس لایا جائے گا۔ میں نے پوچھا، نواز شریف ؟ جواب ملا، یس۔ پھر پوچھا، جہانگیر ترین؟ جواب دوبارہ ملا، یس۔
عمران خان کے بارے سوال کیا تو بولے کہ میں سیاسی جماعتوں اور شخصیات پر پابندی کے حق میں نہیں مگر وہ شخص اب ملکی سیاست میں اہم نہیں رہا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی اور ن لیگ ہی حکومت بنائیں گے۔ اگر حکومت انہوں نے بنانی ہے تو اپوزیشن میں کون ہو گا۔ اس پر جناب نے فرمایا کہ آئی پی پی اور چند چھوٹی جماعتیں۔
میری نشست ختم ہو رہی تھی میں نے پوچھا کہ آپ پیپلزپارٹی پر اعتماد کریں گے مجھے تو نہیں لگتا جواباً بولے ہم میں سے کوئی کسی پر اعتماد نہیں کرتا مگر وزیراعظم ن لیگ کا ہو گا یہ بھی لکھ کر لے جائیں۔