بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل کتنا روشن؟

منگل 25 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چند ماہ قبل ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہلائی جانے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان دنوں بد ترین بحران سے گزر رہی ہے۔ 9 مئی کے ہر تشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے مختلف پریس کلبز میں پریس کانفرنس کر کے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا۔

اگر بات کی جائے بلوچستان کی تو یہاں بھی پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں نے پارٹی کو خیر باد کہا جب کہ عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے رہنما روپوش ہو گئے۔

بلوچستان میں پی ٹی آئی سنہ 2018 کے انتخابات میں بھی اس طرح اپنا جادو نہیں جگا سکی جس طرح ملک کے دیگر صوبوں میں دکھائی دیا۔ قومی اسمبلی کی 16 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی صرف 3 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی جب کہ صوبائی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی صرف 7 نشستوں تک محدود رہی۔

تاہم پی ٹی آئی ابتدائی دنوں سے ہی بلوچستان میں اختلافات کا شکار رہی۔ پارٹی صوبائی سابق صدر یار محمد رند عمران خان کے رویے سے نالاں رہتے تھے جس کے بعد پارٹی کی صوبائی قیادت اس وقت کے ڈپتی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کو سونپ دی گئی۔

چیئیرمن پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے بعد دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی پارٹی کے اہم رہنماؤں نے پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ بلوچستان کے سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی اپنے عروج میں بھی بلوچستان کے لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی جس کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی بلوچستان کے مسائل کے حل میں عدم دلچسپی تھی۔

دوسری جانب سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے نہ صرف صوبے  بلکہ اپنے حلقے میں بھی کوئی انقلابی کام نہیں کیا۔ سیاسی مبصرین کا موقف ہے کہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہزارہ برادری پر مشتمل ہے۔ سنہ 2021 میں ہزارہ برادری کے دھرنے کے دوران اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے لواحقین کی داد رسی کے لیے کوئٹہ آنے سے انکار کردیا تھا جس پر نہ صرف ہزارہ برادری بلکہ دیگر قبائل میں بھی عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی تھی۔

اب ایک بار پھر ملک میں عام انتخابات کی ہوا چل پڑی ہے جس کے لیے جہاں مذہبی، قوم پرست اور نظریاتی و سیاسی جماعتیں صوبوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے لیے کوشاں ہیں وہیں پی ٹی آئی اس عمل میں بہت پیچھے دکھائی دے رہی ہے۔

صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں نے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی قومی و صوبائی سطح پر کمزور ہو چکی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کا اپنی سابقہ حاصل کردہ نشستوں کو جیتنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

’ایلی للّی‘ وزن گھٹانے والی ادویات کی کامیابی سے پہلی ٹریلین ڈالر کمپنی

ضمنی انتخابات: ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر رانا ثنا اللہ کو 50 ہزار روپے جرمانہ

کوپ 30: موسمیاتی مذاکرات میں رکاوٹ، اہم فیصلے مؤخر

صدر آصف علی زرداری کا لبنان کے یومِ آزادی پر پیغام، لبنانی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عزم کا اعادہ

نائجیریا: مسلح افراد کا ایک ہفتے میں دوسری بار اسکول پر حملہ، 215 طلبا اغوا

ویڈیو

میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل

سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حساس ڈیٹا کیوں چوری کیا؟ 28ویں آئینی ترمیم، کتنے نئے صوبے بننے جارہے ہیں؟

عدلیہ کرپٹ ترین ادارہ، آئی ایم ایف کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ، رپورٹ 3 ماہ تک کیوں چھپائی گئی؟

کالم / تجزیہ

ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت