جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 39 سال عمر کے 90 لاکھ نوجوان منشیات کے عادی ہیں، پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 62 ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے، پاکستان کو “Highway of Narcotics” کہا جاتا ہے، پاکستان میں ہونے والا منشیات کا کاروبار دفاعی بجٹ سے 80 گنا زیادہ ہے، ہمارے بچے تباہ ہو رہے ہیں، ہر گلی محلے میں منشیات عام ہو گئی ہیں، بہاولپورکی اسلامیہ یونیورسٹی کا واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ کالجز اور تعلیمی اداروں میں منشیات عام ہیں، بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی میں چیف سیکیورٹی آفیسر سے منشیات برآمد ہوئی ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انسداد نشہ آور اشیاء ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کر کے انسداد نشہ آور اشیاء ترمیمی بل 2023 منظور کر لیا گیا ہے۔ بل پر سینیٹر مشتاق احمد خان کے علاوہ کسی نے سخت احتجاج نہیں کیا۔ بل کی مخالفت کرنے پر سپیکر راجہ پرویز اشرف نے سینیٹر مشتاق احمد خان کو اظہار خیال کا موقع دیا جس پر سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو کرے، مرتضی جاوید عباسی نے ترمیمی بل پیش کیا لیکن ان کو اور وزیر قانون کو معلوم نہیں کہ اس بل میں کیا ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ انسداد منشیات کے قانون میں ترمیم کے بعد اب 5 کلو یا 6 کلو منشیات برآمد ہونے پر بھی ملزم کو سزائے موت کی سزا نہیں دی جا سکتی، میں اس سے اختلاف کرتا ہوں، پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے اور منشیات بہ آسانی دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منشیات استعمال یا فروخت کرنے کے جرم میں ایک بھی شخص کو پھانسی کی سزا نہیں ہوئی ہے، اگر ہوئی ہے تو مرتضی جاوید عباسی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بتا دیں، یہی وجہ ہے کہ منشیات عام ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ کیا اس ترمیم سے سمگلروں کو سپورٹ کیا جا رہا ہے؟ کیا آپ لوگ ڈرگ ٹریفکر کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ کیا منشیات کا کاروبار کرنے اور منشیات امپورٹ اور ایکسپورٹ کرنے والے کو ریلیف دینا چاہتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو چوک میں پھانسی دی جائے۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قوانین عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق اور پریکٹیکل ہونے چاہئیں، سزائیں بڑھانے سے جرائم میں کمی نہیں ہو سکتی، جرائم میں کمی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک جرم کرنے والے کو یقین نہ ہو کہ نظام عدل اتنا مضبوط ہے کہ جرم کرنے والا سزا سے نہیں بچے گا۔ انسداد منشیات قوانین کو بنے ہوئے 25 سال ہو گئے لیکن ان برسوں میں ایک شخص کو پھانسی نہیں ہوئی، دنیا میں بھی اس جرم کی سزا عمر قید ہے، یہ ترمیم نیک نیتی سے کی گئی ہے۔