پہلے ہم روزی گبرئیل کی مثال لیتے ہیں، یہ انتہائی خوبصورت اور جوان غیر ملکی لڑکی سالہاسال سے گلگت بلتستان اور خیبر پختون خواہ کے جنگلوں اور پہاڑوں سے پنجاب اور سندھ کے میدانوں اور بلوچستان کے صحراؤں تک اپنی موٹر سائیکل پر اکیلی گھومتی رہتی ہے۔
اسی پاکستان کے لوگوں کے رویے اور اخلاق نے روزی گیرئیل کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ مسلمان ہوگئی۔
اپنے سوشل میڈیا بلاگ میں اس نے ایک بار لکھا تھا کہ پاکستان کا ہر مرد میرا محافظ ہے اور میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہوں اور یہی میرا عملی تجربہ بھی ہے۔
لاکھوں واقعات اور مثالوں میں سے ایک اور مثال احمد رحیم کی ہے جو میرا قریبی دوست اور پیشے کے لحاظ سے انجینئیر ہے وہ 20 سال پرانا واقعہ سناتا ہے کہ شادی کے چند دنوں بعد بیوی کو لے کر قدرے غیر محفوظ پہاڑی علاقے گیا۔ وہاں ایک ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا کہ رات کے وقت اچانک اہلیہ کی طبیعت خراب ہوگئی.
اب اس جنگل میں نہ کوئی اسپتال تھا اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر اس لیے ایک سراسیمگی کے ساتھ پر خطر علاقے میں بیوی کو ساتھ لے کر شہر کی جانب روانہ ہوا لیکن چند کلومیٹر دور جا کر ایک اور مصیبت آن پڑی اور گاڑی اچانک بند ہو گئی۔
اب رات، جنگل، خطرہ اور بے بسی ہی ہمارے اردگرد تھے۔ میں شدید پریشانی کے عالم میں تھا کہ اچانک ایک گاڑی قریب سے ہو کر گزری اور کچھ دور جاکر رکی جس سے 3 نوجوان باہر نکلے جب کہ ڈرائیور گاڑی میں موجود رہا مجھے شدید خطرہ محسوس ہوا۔ اس لیے گاڑی سے اپنا پستول نکال کر خود کو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کر ہی رہا تھا کہ ایک ہینڈسم نوجوان قریب آیا اور مہذب انداز سے پوچھا کہ سر کیا مسئلہ ہے؟
میں نے اپنی پریشانی کا بتایا تو اس نے کہا کہ فکر نہ کریں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور اپنے ڈرائیور کو بلا کر ہدایات دیں جس نے ڈگی سے رسہ نکالا اور اپنی گاڑی کے ساتھ میری گاڑی کو باندھ دیا اور ہم شہر کی طرف روانہ ہوئے لگ بھگ 40 منٹ بعد ہم شہر پہنچے تو گاڑی روک کر بتایا کہ آپ بھابھی کو لے کر میرے ڈرائیور کے ساتھ اسپتال چلے جائیں اور جب وہاں سے فراغت ہوجائے تو ڈرائیور آپ کو میرے گھر لے آئے گا۔ میں نے اپنی اہلیہ کو بتادیا ہے اور وہاں آپ کے لیے انتظام بھی کر لیا گیا ہے جب کہ آپ کی گاڑی صبح ورکشاپ بھیج دیں گے۔
اسی رات احمد رحیم کو پتا چلا کہ اس کا محسن دراصل ایک فوجی کیپٹن ہے اور باقی لوگ اس کے سپاہی تھے۔
وہ نوجوان کیپٹن آج کل ایک اہم عہدے پر ہیں جب کہ احمد رحیم اپنی کنسٹرکشن کمپنی چلا رہا ہے لیکن وہ احسان مندی دونوں کے درمیان ایک ایسا تعلق اور رشتہ بنا گئی کہ بھائیوں کو بھی رشک آنے لگے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مجموعی رویہ اور مزاج یہی ہے جس کی میں نے صرف ایک دو مثالیں اوپر بیان کر دیں لیکن کیا ’ہائبرڈ رجیم کے تخلیقی کمال‘ سے مخالف نقطہ نظر رکھتے ہوئے آپ مشکل حالات میں کسی شائستگی اور ہمدردانہ رویے کا تصور کر سکتے ہیں؟
کہنا یہی ھے کہ صلہ رحمی احترام انسانیت اور تہذیبی حسن سے مزین رویہ ہی ہمارا بنیادی مزاج اور تہذیب ہے۔
ہمارا قومی رویہ اور اخلاقیات وہ ہرگز نہیں جسے ہائبرڈ رجیم نے اس خون آشام عفریت کی شکل میں تخلیق کیا جس کے منہ سے صبح و شام گالم گلوچ، الزام و دشنام اور توہین و تحقیر کی رال ٹپک رہتی ہے۔
اس ’سیاست‘ کا فائدہ تو نہیں معلوم کہ کیا ہوا لیکن نقصانات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک کالم میں تو کیا وہ کتب خانوں کی تمام کتابوں میں بھی نہیں سما سکتی۔
لیکن بہت سارے نقصانات میں سے ایک خوفناک نقصان یہ بھی ہے کہ یہ رویہ ہمیں اس شاندار روایت سے محروم بھی کرتا گیا جو روزی گبریئل اور احمد رحیم جیسے لوگوں کا نہ صرف ہر روز تجربہ بنتا اور تہذیبی شائستگی کا حسن بڑھاتا ہے بلکہ ہمیشہ ہمارے تحفظ اور عزت نفس کا ضامن بھی بنتا ہے۔ کیوں کہ جہاں محض فکری اختلاف پر اپنے مخالفین کے گھروں پر دھاوا بولنے، جوتا اور سیاہی پھینکنے، گولی مارنے، خواتین کا نام لے کر گالیاں اور طعنے دینے، شہدا اور اموات کا مذاق اڑانے، دھمکیاں دینے اور اسکولوں میں مخالفین کے بچوں تک کو ہراساں کرنے کے ’مبلغ‘ کو سیاست کرنے کی آزادی بھی حاصل ہو اور مقبولیت کا پھریرا بھی لہراتا پھرے تو پھر معاشرے کی جو درگت بننی ہے وہ تو خیر بنتی جائے گی لیکن ان حالات میں امن، انسانیت، تہذیب اور شائستگی کا خواب دیکھنے والا کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن کم از کم صاحب عقل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ اس طرح کی ’سیاسی تبلیغ‘ سے محبت کا گگنگناتا چشمہ نہیں بلکہ سب کچھ بھسم کرتا ہوا رویوں کی درندگی کا لاوا ہی پھوٹتا ہے اور یہ ’لاوا‘ پشاور ریڈیو اسٹیشن سے جناح ہاؤس لاہور تک ٹھاٹیں مارتا دکھائی بھی دیا۔