پاکستان میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، سیاسی اکھاڑہ سج چکا ہے۔ دنگل میں زور آزمائی کے لیے سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں تیاریوں میں مگن ہیں۔ بلوچستان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بڑھاتا جا رہا ہے۔
صوبے کی تمام قوم پرست، مذہبی و نظریاتی جماعتیں بھی اپنی اپنی جماعتیں کی تنظیم نو میں مشغول ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے سے قبل صوبے کی حکمران جماعت ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ نے بھی اپنے مستقبل سے متعلق اہم فیصلوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
مزید پڑھیں
’بلوچستان عوامی پارٹی‘ 2018 کے انتخابات سے قبل معرض وجود میں آئی۔ اُس وقت اِس جماعت میں صوبے کے اہم سیاسی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین نے جوق درجوق شمولیت اختیار کی۔ ان اہم سیاسی و قبائلی شخصیات میں سیّد احمد ہاشمی، منظور کاکڑ، سرفراز بگٹی، عبدالقدوس بزنجو، جان جمالی، ظہور بلیدی سمیت کئی اہم رہنما شامل ہیں۔
پارٹی معرض وجود میں آئی تو جام کمال خان کو ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کا صدر بنایا گیا، گزشتہ عام انتخابات میں ’باپ‘ نے وفاق اور صوبے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔
قومی اسمبلی میں محمد اسرار ترین، خالد مگسی، احسان اللہ ریکی اور زبیدہ جلال نے اپنی نشستیں جیتیں جبکہ صوبے میں ’باپ‘ 24 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ انتخابات کے بعد ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی جبکہ وفاق میں عمران خان کی اتحادی رہی۔
’باپ‘ میں اختلافات کیوں پیدا ہوئے
صوبے میں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے والی ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ اقتدار سنبھالنے کے چند عرصے بعد فنڈز کے اجرا سمیت دیگر پارٹی معاملات پر اختلافات کا شکار ہو گئی جس کے بعد تقریباً 2 سال کی قلیل مدت پوری ہوتے ہی اُس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو گئی اور انہیں گھر کا راستہ دکھا دیا گیا۔
بعدازاں عبدالقدوس بزنجو نے پارٹی کی کمان سنبھالی لیکن ایک بار پھر فنڈز کے اجرا کے معاملے پر پارٹی میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ اب کی بار ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، آغا شکیل درانی، سیّد حسین ہاشمی سمیت دیگر رہنما ’باپ‘ کو خیر باد کہہ گئے۔
پارٹی مستقبل میں کیا کرنے جا رہی ہے؟
’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کے کئی اہم رہنما پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان، سینیٹر سرفراز بگٹی اور سیّد احمد ہاشمی سمیت کئی اہم رہنما ’باپ‘ سے اپنی راہیں جدا کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
دوسری جانب وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل منظور احمد کاکڑ نے کہا کہ پارٹی معاملات سے متعلق قائم مقام صدر مملکت صادق سنجرانی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے درمیان ملاقات ہو چکی ہے جس میں پارٹی کی تنظیم سازی سمیت دیگر اہم معاملات زیر بحث رہے ہیں۔
منظور کاکڑ نے بتایا کہ انتخابات سے قبل جہاں اپنے روٹھے ساتھیوں کو منانے کے لیے کوششیں کی جائیں گی وہیں چند اہم شخصیات بھی بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بنیں گی۔
منظور کاکڑ نے مزید بتایا کہ نگران وزیراعظم کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی‘ بھی اپنا نام دے گی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ عوامی حلقوں میں اپنی کارکردگی سامنے لانے میں ناکام رہی اور صوبے کی معاشی حالت بھی درست نہیں کر سکی۔ اس وقت عوام عبدالقدوس بزنجو سے شدید مایوس ہیں جسکی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں ’باپ‘ زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔