آرمی ایکٹ میں ترمیم کا پس پردہ راز

اتوار 30 جولائی 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اہل خبر اور اہل سیاست دونوں کو پسوڑی پڑی ہوئی ہے کہ نگراں وزیر اعظم کون ہو گا؟ اس بحث میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا نام بھی آ گیا اور اتنا رولا پڑا کہ پناہ بہ خدا۔ یہ نام کیسے سامنے آیا؟ اس اسرار پر بات کرنی ہے لیکن اس سے قبل ایک ضروری بات۔

نگران وزیر اعظم کا تقرر یقیناً ایک اہم معاملہ ہے اور اس میں حساسیت بھی بہت ہے لیکن اس بحث سے منسلک ایک اور بحث جس کا تعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم سے ہے، زیادہ اہم ہے۔ یہ ایکٹ منظور ہوا تو ایک دوست نے لکھا ’کیا ہم اب فوج کے بارے میں لطیفے بھی سن سنا نہیں سکیں گے؟‘

ان کے سوال پر ایک بلند قہقہہ بلند ہوا اور ایک برگزیدہ سابق فوجی افسر نے کہا کہ آپ پر یہ پابندی تب عاید ہوگی جب خود فوجی یہ کام چھوڑ دیں گے۔

آرمی میس میں گفتگو کی روایت اور کلچر سے جو لوگ واقف ہیں، جانتے ہیں کہ ہمارے آپ تک پہنچنے والے بیشتر فوجی لطیفے وہی ہوتے ہیں جن کی داغ بیل میس میں پڑتی ہے۔ یوں ہمارے دوست کی پریشانی تو دور ہو جانی چاہیے لیکن اصل سوال اور ہے۔

فوج کے ریٹائرڈ افسر اور ملازمین ہوں یا سول سروس کے سابق افسران ان سب پر پابندی ہے کہ وہ 2 برس تک ذرائع ابلاغ سے گفتگو کر سکتے ہیں اور نہ سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔

ترمیم شدہ ایکٹ میں پابندی کی نوعیت بنیادی طور پر اب بھی وہی ہے لیکن وہ لوگ جو حساس عہدوں پر فائز رہے ہیں، ان پر اب یہی پابندی 5 برس طویل ہوگی۔ اس ترمیم کا مقصد کیا ہے؟ ایک سوال تو یہ ہے، دوسرا ایک اعتراض ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ اس قانون کی منظوری میں جلد بازی سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اعتراض 2 نہایت قابل احترام سینیٹر صاحبان کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ ان میں ایک سینیٹر رضا ربانی ہیں اور دوسرے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان۔

سینیٹر رضا ربانی صاحب کا شمار ہمارے ان قانون سازوں میں ہوتا ہے جو جمہوری اور پارلیمانی روایات کے بارے میں ہمیشہ حساس رہتے ہیں۔ اتنے کہ پارٹی پالیسی کے تحت انہیں اگر کسی ایسے معاملے میں ایوان میں ووٹ دینا پڑ جائے جو ان کے نزدیک روایت سے ہٹ کر ہو تو وہ دُکھی ہو جاتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قانون کے حق میں ووٹ دیتے وقت ان کا آبدیدہ ہو جانا لوگوں کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

جن لوگوں کو ایوان میں سینیٹر مشتاق احمد خان کی کارکردگی کے مشاہدے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ انہیں ایوان کی آبرو قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ ہمارے ان نسبتاً نوجوان اراکین پارلیمان میں نمایاں ترین ہیں جو تیاری کر کے ایوان میں آتے ہیں اور بحث میں حصہ لینے کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ انہیں بعض اوقات جذباتی ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے لیکن فی الاصل وہ ایک مدبر کی طرح نہایت سنجیدگی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ہمارے ایوان بالا میں ان کی موجودگی غنیمت ہے اور جماعت اسلامی نے انہیں اس ایوان میں بھیج کر حقیقتاً ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ میں یہ ترمیم جس کی مخالفت اتنے سنجیدہ سیاستدان کر رہے ہیں، کیا واقعی محلِ نظر ہے اور کیا ایسی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے تھی؟

پارلیمان میں قانون سازی کا معاملہ یقیناً بہت حساس اور غیر معمولی ہوتا ہے۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ایوان نہایت اطمینان سے بلکہ سست رفتاری کے ساتھ قانون سازی کرتا ہے اور کبھی صورت حال مختلف ہوتا ہے۔

 اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد سے ملک ایک ہنگامی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ 9 مئی کے ہنگاموں اور قانون شکنی کے واقعات کو عمران خان کی معذرت خواہی کرنے والے دانشوروں نے انقلاب سے تعبیر کیا تھا اور ریاست کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس کے سامنے سر جھکا دے۔

اب یہ الگ بحث ہے کہ انقلاب کی تعریف کیا ہے اور کیا 9 مئی جیسے واقعات کو انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ حقیقت میں یہ ایک منظم سازش تھی جس میں بعض نہایت اہم اور حساس مناصب پر فائز افراد بھی شریک تھے، جس کا مقصد ایک ایسی بغاوت تھا جس کے ذریعے دفاعی اداروں کو زیر کرنے کے بعد ریاست پر قبضہ کرنا تھا۔ اس سازش کے تانے بانے بہت دور تک جاتے ہیں جب اس سازش کی تفصیلات سے پردہ اٹھے گا تو اس کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کی حکمت اور فوری ضرورت بھی سامنے آ جائے گی۔

اس ایکٹ میں ترمیم کا ایک پس منظر تو یہ ہے۔ اس کے پس پشت دوسرا مقصد اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ سیاست سے لا تعلق ہو جانے سے متعلق مختلف زمانوں میں ذمے داری سنبھالنے والی فوجی قیادت کی طرف سے اکثر اعلانات آتے رہے ہیں لیکن بعد کے حالات نے یہ ثابت کیا کہ یہ محض اعلانات ہی تھے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اس ضمن میں نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور ایسی قانون سازی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں حالیہ برسوں کی طرح کھلی مداخت کا راستہ رک جائے گا اور یہ بھی ممکن نہیں رہے گا کہ ادھر کوئی ریٹائر ہو جائے اور اگلے دن اپنے گھر کے لان میں ایک سیاسی جماعت کا اجتماع منعقد کر کے نہ صرف یہ کہ اپنے سیاسی عزائم کا اعلان کر دے بلکہ اپنے شاگردوں کو نشان ’منزل‘ سے بھی روشناس کرا دے۔

اس قانون کی منظوری فوج کی طرف سے دراصل اس عزم کا اظہار ہے کہ ’جس کا کام، اسی کو ساجھے‘ جس کسی کو کارِ سیاست میں کار گزاری دکھانے کا شوق ہے، یہ کام وہ اپنے بل بوتے پر کرے۔ ادارے کی طاقت کو وہ اپنی قوت بنانے سے گریز بھی کرے اور اسے ایسے حالات بھی میسر نہ آ سکیں جن کی مدد سے وہ ریاست کو غیر مستحکم کر سکے۔

مختصر الفاظ میں اگر یوں کہیں کہ یہ قانون سازی 9 مئی کے تکلیف دہ حالات کے سبق کا نتیجہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔

اب رہ گیا اسحاق ڈار کا معاملہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں۔ کسی کی کوئی خواہش تھی، بچگانہ خواہش سمجھ لیجیے، اسے ہنستے کھیلتے نمٹا دینے کا ایک قرینہ تھا، اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کچھ کہا تو نے، کچھ کہا میں نے، پھر ہنس دیے پھر چل دیے۔ یہ معاملہ بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ آپ بھی آگے بڑھیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp