چپس فروخت کرنے والا 13 سالہ ابو ذر جو باجوڑ میں دہشتگردی کا نشانہ بنا

پیر 31 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

باجوڑ میں ہونے والے دھماکے میں چپس فروخت کرنے والا 13 سالہ بچہ ابوذر بھی نشانہ بنا جس کی لاش بغیر سر کے ملی، والد نے بیٹے کو کپڑوں سے شناخت کیا۔

مرنے والے بچے کے چچا منور نے بتایا کہ ابو ذر سہ پہر 3 بجے کے قریب گھر سے نکلا ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کہاں گیا، دھماکے بعد پورے علاقے میں ڈھونڈا مگر نہیں ملا، اسپتال گئے تو سر کے بغیر لاش پڑی تھی، والد نے پہچان لیا۔

ابوذر کے اہل خانہ جوان بیٹے کی ناگہانی موت پر غم سے نڈھال ہیں۔ چچا منور نے مزید بتایا کہ بچے کا والد بات کرنے کے قابل نہیں، ابوذر گھر کا لاڈلہ تھا جو بہنوں کا خاص خیال رکھتا تھا اور محنت مزدوری کرکے گھر کے اخراجات میں والد کی مدد کرتا تھا۔

خار میں جہاں جلسہ ہو رہا تھا وہ جگہ ابوذر کا گھر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ منور کے مطابق ابو ذر جلسے کے دن گھر سے پیدل جلسہ گاہ آیا۔ ’وہ سہ پہر کے وقت بازار میں کھانے پینے کا سامان فروخت کرتا تھا‘۔

انہوں نے بتایا کہ 13 سالہ ابوذر ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اسے تعلیم کی فکر تھی۔

خود کش حملے کا نشانہ بننے والے بچے کے والد مقامی بازار میں ریڑھی پر سامان فروخت کرتے ہیں۔ اہل خانہ کے مطابق ابوذر انتہائی محنتی بچہ تھا جو تعلیم کے ساتھ محنت کرکے گھر میں بھائی اور بہنوں کی کفالت بھی کرتا تھا۔ ’وہ تعلیم کے تمام اخراجات خود برداشت کرتا تھا اور والد کی بھی مدد کرتا‘۔

منور نے مزید بتایا کہ بچے کی ماں اور بہنوں کو اپنے پیارے کا آخری بار دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ سب کا ایک ہی سوال تھا کہ ابو ذر کا کیا قصور تھا۔

’بڑا افسر بننا چاہتا تھا‘

ابوذر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ چچا منور کے مطابق وہ کبھی بھی شکایت نہیں کرتا تھا بلکہ ہر حال میں خوش تھا۔ ابو ذر والد سے کہتا کہ میں محنت کر کے اپنی تعلیم جاری رکھوں گا اور ایک دن بڑا افسر بنوں گا مگر دہشتگردوں نے اس کا خواب چکنا چور کر دیا۔

دینی مدرسے میں زیر تعلیم 5 سالہ موسیٰ بھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گیا

باجوڑ سلارزئی کا رہائشی 5 سالہ موسیٰ خار کے ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم تھا۔ 30 جولائی کو وہ مدرسے میں تھا اور قریبی ہی جے یو آئی کا ورکرز کنونشن ہو رہا تھا۔ ننھا موسیٰ بھی سیاسی نعروں کی آواز سن کر جلسہ گاہ پہنچا لیکن واپس نہیں لوٹا۔

ریسکیو اہلکاروں اور پولیس کے مطابق جلسہ گاہ میں کافی تعداد میں ورکرز موجود تھے۔ پارٹی اور جماعت کے سیاسی قائدین کے حق میں نعرہ بازی کے دوران زور دار دھماکا ہوا۔ ریسکیو اور عینی شاہدین کے مطانق دھماکے کے بعد ہر طرف افراتفری اور خون ہی خون تھا۔ جس کے فوراً بعد امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئی۔

زخمیوں کو ابتدائی طور پر باجوڑ کے ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا گیا جن میں ننھا موسیٰ بھی شامل تھا۔ ریسکیو اہلکار نے بتایا کہ زخمی موسیٰ کو پہلے ڈی ایچ کیو پھر بہتر علاج کے لیے تیمرگرہ اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

ریسکیو افسر عبدالرحمان نے وی نیوز کو بتایا کہ موسیٰ کو جب تیمرگرہ کے اسپتال منتقل کیا گیا تو وہ شدید زخمی تھا اور اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے بھائی سے رابطہ ہوا جو چھوٹے بھائی کے بارے میں بے خبر تھے۔ انہیں موسیٰ کے بارے میں بتایا تو وہ جلد ہی تیمرگرہ اسپتال پہنچ گئے تھے۔

عبدالرحمان نے بتایا کہ اسپتال میں فوری طور پر موسیٰ کا آپریشن کیا گیا لیکن آپریشن کے بعد بھی اس کی حالت میں بہتری نہیں آئی۔ جس کے بعد ڈاکٹرز نے انہیں پشاور ریفر کر دیا تھا۔ ڈاکٹرز کی ہدایت پر ریسکیو نے موسیٰ کو پشاور منتقل کرنے کے لیے روانہ کیا لیکن رستے میں اس کی حالت بگڑنے لگی اور چکدرہ کے قریب پہنچ کر شہید ہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو ٹیم نے جسد خاکی کو سلارزئی میں ان کے آبائی علاقے منتقل کر دیا جہاں انہیں سسکیوں اور آہوں میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔

موسیٰ تو مدرسے میں تھا؟

موسیٰ کے بھائی انور اللہ کے مطابق موسیٰ 5 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کا لاڈلا تھا۔ انور اللہ نے ریسکیو ٹیم کو بتایا کہ وہ موسیٰ کے زخمی ہونے جلسہ گاہ جانے سے سے لاعلم تھا۔ ہمارے مطابق تو موسیٰ کو مدرسے میں ہونا چاہئے تھا لیکن قریب ہی جلسہ گاہ تھی۔

لاش کی جوتوں سے شناخت؟

باجوڑ دھماکے کے شہدا کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ 31 سے زائد لاشی شناخت کے بعد لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق 8 لاشیں ایسی ہیں جو شناخت کے قابل نہیں جبکہ ایک لاش کی شناخت جوتوں سے کی گئی ہے۔

باپ اور جوان بیٹا شہید، گھر سے 2 جنازے نکلے

باجوڑ دھماکے میں شہید ہونے والوں میں باپ بیٹا بھی شامل ہیں۔ ریسکیو اور پولیس کے مطابق سیکریٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام باجوڑ حاجی مجاہد اور ان کا بیٹا ضیاء الدین دونوں شہید ہو گئے ہیں۔ ایک ہی گھر سے 2 جنازے نکلنے پر علاقے میں کہرام مچ گیا۔

جاں بحق افراد کی اکثریت کی تدفین کر دی گئی

دھماکے میں شہید ہونے والوں کی اکثریت کی آبائی علاقوں میں تدفین کر دی گئی ہے۔ نمازِ جنازہ میں بڑی تعداد میں اہل علاقہ اور کارکنان نے شرکت کی۔ ضلعی امیر باجوڑ کی نماز جنازہ بھی ادا کر دی گئی۔ جس کے بعد انہیں آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔

طالبان کی لاتعلقی، داعش کے ملوث ہونے کا شبہ

باجوڑ دھماکے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی مذمت اور اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی حملے میں ملوث نہیں ہے۔ ادھر پولیس نے حملے میں داعش کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک کی تحقیقات اور شواہد سے داعش کے ملوث ہونے کا شبہ ہے جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp