تلخ حقیقت

منگل 1 اگست 2023
author image

صدف ابرار

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنسی زیادتی ایک تلخ حقیقت ہے جس سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں۔ ملک کے مختلف شہروں سمیت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی جنسی زیادتی کے کیسز آئے روز سامنے آتے  ہیں لیکن اکثر و بیشتر اسے ایک حساس موضوع قرار دے کر اس پر زیادہ گفتگو  نہیں ہوتی۔ کئی بار تو ایسے کیسز رپورٹ بھی نہیں ہوتے اور مقامی سطح پر شرمندگی کے خوف سے دبا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب ان مسائل پر بات کرنا  بہت ضروری ہو گیا ہے،اور یہ سب سنسنی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ عوام میں بیداری اور جنسی استحصال کا شکار متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنسی زیادتی جرائم کی ایک وسیع رینج پر محیط ہے، جس میں عصمت دری، چھیڑ چھاڑ، ہراساں کرنا، اورکسی کمزور فرد پر حملہ آور ہوجانا شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ قابل مذمت کارروائیاں وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں بھی بڑھ رہی  ہیں، جو ہر جنس، عمر اور سماجی ومعاشی پس منظر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔لیکن سماجی بدنامی، انتقام کے خوف اور انصاف کے نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے بہت سے معاملات چھپے رہتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام آباد جو انتہائی محفوظ سمجھا جانے والا شہر تھا، اس میں خواتین اور بچوں کی جنسی ہراسانی یا زیادتی کا کیس سامنے آتا ہے۔ جیسے کبھی عوامی مقامات پر خواتین کو غیر اخلاقی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی ریپ اور جسمانی تشدد کی کاروائیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہے۔جنسی زیادتی کے شکار افراد کو اکثر جذباتی، جسمانی اور نفسیاتی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا اثر دیرپا ہو سکتا ہے، جس سے شرمندگی، جرم اور بے بسی جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں، جنسی زیادتی کے بعد زندہ بچ جانے والوں کو اضافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے کہ متاثرہ شخص پر الزام لگانا جسے ہم وکٹم بلیمنگ کہتے ہے،یعنی اگر کوئی شخص جنسی زیادتی کا نشانہ بنے تو معاشرے میں موجود لوگ ملزم کے اس گھٹیا فعل کو بعد میں دیکھتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا نشانہ بننے والی خاتون کس پوزیشن میں تھی اس نے کیسا لباس پہنا تھا،وہ کسی محرم کے بغیر کیوں تھی یا وہ گھر سے باہر کیوں نکلی تھی وغیرہ،وغیرہ۔ اس طرح کے معاشرتی رویے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے شخص کو مکمل طور پر ذہنی نفسیاتی اور سماجی تنہائی کا شکار بنا دیتے ہیں۔

جنسی زیادتی کے کیسز میں سب سے تشویش ناک پہلو بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں۔ جس میں مالی طور پر کمزور یا مزدوری کرنے والے بچوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اور ان کیسز میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے افراد اکثر ان کے جاننےوالے یا بھروسہ مند افراد ہوتے ہیں ۔ بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں خاموشی کو توڑنا بہت اہم ہےلیکن یہاں پر ہمیں ایک اور چیلنج کا بھی سامنا ہے ۔وہ یہ کہ جنسی استحصال کے ارد گرد خاموشی اور شرم کی مروجہ ثقافت زندہ بچ جانے والوں کو آگے آنے اور واقعات کی اطلاع دینے سے روکتی ہے۔ بہت سے متاثرین کو انتقامی کارروائی، مزید شکار ہونا ، یا اپنے خاندانوں اور برادریوں کی طرف سے حمایت کی کمی کے خوف کا سامنا رہتا ہے۔ مزید برآں، زندہ بچ جانے والوں کو قانونی نظام پر اعتماد نہیں ہو سکتا، کیونکہ اکثر یہ متاثرین کی مدد کی بجائے طاقتور کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ جنسی زیادتی کے کیسز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے پاکستانی قانونی نظام کی خامیوں کو مکمل طور پر دور کرکے موجودہ قوانین کے نفاذ کو بہتر بنانا ہو گا۔ اس میں مناسب تفتیشی طریقہ کار کو یقینی بنانا، قانونی عمل کے دوران زندہ بچ جانے والوں کے لیے سپورٹ سسٹم، اور مجرموں کے لیے فوری سزا اور جزا کا قانون شامل ہے۔ قانونی اصلاحات میں زندہ بچ جانے والوں اور گواہوں کے تحفظ پر بھی زور دینا چاہیے۔ جس سے انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر جرائم کو رپورٹ کرنا آسان ہو جائے۔علاوہ ازیں جنسی استحصال سے بچنے کے لئےبیداری اور آگاہی مہم بہت ضروری ہے۔ عوامی مہمات، اسکول کے نصاب، اور کمیونٹی کے مباحثے خاموشی کو توڑنے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ یہ کوششیں ان افراد کو بدسلوکی،جنسی طور پر ہراسگی  کی علامات کو پہچاننے، اور اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی مدد کر سکتی ہیں ۔اسی طرح جنسی زیادتی سے بچ جانے والوں کو اپنے صدمے سے صحت یاب ہونے کے لیے مناسب مدد اور مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مد میں مختلف این جی اوز، ہیلپ لائنز، اور سپورٹ گروپس زندہ بچ جانے والوں کو اپنے تجربات شیئر کرنے اور مدد حاصل کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو مزید بحالی مراکز اور متاثرہ لوگوں کے لیے مشاورتی خدمات کے قیام کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔

 جنسی استحصال کا مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہے جس کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔اس کے لیے خاموشی کو توڑنا، بیداری کو فروغ دینا، اور مضبوط قانونی اقدامات کو نافذ کرنا شہر کے مکینوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے جیسے ضروری اقدامات ہیں۔لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ایک ساتھ کھڑے ہوں، بچ جانے والوں کی مدد کریں، مجرموں کو جوابدہ ٹھہرائیں، اور سب کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ ہمدرد معاشرہ بنائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp