اسلام آباد کے سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کے مبینہ ظلم کی شکار 15 سالہ رضوانہ کو سرگودھا سے انتہائی تشویشناک حالت میں لاہور کے جنرل اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں پر وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِ علاج ہے۔ جب رضوانہ کو اسپتال لایا گیا تھا تب اس کے زخموں کی حالت ایسی تھی کہ ان میں کیڑے پڑ چکے تھے اور وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر جودت سیلم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رضوانہ نے پولیس کو ابھی کوئی بھی بیان نہیں دیا ہے اور جب وہ اسپتال پہنچی تھی تو اس وقت ہوش میں نہیں تھی لیکن اب وقفے وقفے سے اسے ہوش آنے لگا ہے۔
ڈاکٹر جودت کا کہنا تھا کہ رضوانہ اس وقت مکمل ہوش و حواس میں تو نہیں لیکن جس طرح اس پر تشدد کیا گیا ہے اس پر ایک نفیساتی اثر ہوگیا ہے اور اس پر ہونے والا تشدد اس کے دماغ میں گردش کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچی جب بھی ہوش میں آتی ہے تو ’مجھے مت مارو، مجھے مت مارو‘ کہنے لگتی ہے اور پھر دوبارہ نیم بے ہو شی کی حالت میں چلی جاتی ہے۔
جودت سیلم نے کہا کہ رضوانہ کے والدین کے مطابق اس کی عمر 15 سال ہے لیکن وہ اپنے بدن اور نشونما کے لحاظ سے 13سال کی لگتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رضوانہ اپنے والدین کو تو پہچان لیتی ہے لیکن وہ ابھی شاید دوسروں کو پہلے کی طرح شناخت نہیں کر پارہی تاہم جب اسے مکمل ہوش آجائے گا تب ہی اس کی موجودہ دماغی حالت کے بارے میں ٹھیک سے اندازہ ہوسکے گا۔
’اگلے 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں‘
پروفیسر ڈاکٹر جودت سلیم نے وی نیوز کو یہ بھی بتایا کہ اگلے 48 گھنٹے رضوانہ کے لیے انتہائی اہم ہیں تاہم آج اس کی طبیعت میں بہتری نظر آئی ہے، اس کا آکسیجن ماسک بھی اتار دیا گیا ہے اور اس نے کئی روز بعد ہلکی پھلکی خوراک بھی کھانی شروع کی ہے۔
معالج کا کہنا ہے کہ رضوانہ کی طبیعت میں 25 سے 30 فیصد بہتری دیکھنے میں آئی ہے جب کہ مختلف ٹیسٹس کی رپورٹس بھی ٹھیک آئی ہیں لیکن اس کے جسم پر زخم زیادہ ہونے کی وجہ سے انفیکشن اب بھی ہے جس کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے بھجوادیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر جودت کا کہنا ہے کہ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ بچی جلد صحت یاب ہو جائے لیکن زخم اتنے زیادہ اور گہرے ہیں کہ انہیں مکمل ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچی کو ابھی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی حالت کو 48 گھنٹے تک مونیٹر کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ بچی کی طبیعت میں سدھار ضرور ہے لیکن وہ انتہائی تکلیف کا شکار ہے تاہم اس کو انجیکشنز دیے جا رہے ہیں اور خون بھی چڑھایا جا رہا ہے کیوں کہ بچی انیمیا کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس کے جسم میں خون کی خاصی کمی ہے۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بچی کے جسم میں انفیکشن کا تناسب انتہائی زیادہ ہے جس کو میڈیکل کی ٹرم میں سیپسس کہتے ہیں اور اس انفیکشن نے اس کے پھیپھڑوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
کیا رضوانہ کو زہر بھی دیا گیا؟
میڈیکل بورڈ کی سربراہ ڈاکٹر جودت سیلم نے یہ بھی بتایا کہ بچی کو زہر دینے کے حوالے سے خدشات پائے جا رہے تھے جس کے لیے ہم نے کچھ ٹیسٹ کروائے ہیں اور ان کی رپورٹ اگلے 72 گھنٹوں میں آجائے گی جس کے بعد پتا چل جائے گا کہ اسے واقعی زہر دیا گیا تھا یا نہیں۔