ملک بھر میں فی لیٹر پیٹرول 272 روپے جبکہ بلوچستان میں 225 روپے کیسے فروخت ہو رہا ہے؟

بدھ 2 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی حکومت نے اپنی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل عوام کو ایک اور بڑا دھچکا دے دیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کیا۔

وزیر خزانہ کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل 19 روپے 90 پیسے مہنگا کیا گیا ہے جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 273 روپے 40 پیسے ہوگی۔ پیٹرول کی قیمت میں 19 روپے 95 پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272 روپے 95 پیسے ہوگئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق فوری طور پر نافذ العمل کیا گیا۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر ملک بھر میں عوام حکومتی اقدام سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ عوام کا شکوہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی مسلسل بڑھتی قیمتوں سے مہنگائی کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے جس سے متوسط طبقے کا دو وقت کی روٹی پوری کرنا ممکن نہیں رہا۔

تاہم ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ملک کے باقی حصوں کے برعکس صوبہ بلوچستان میں پٹرول کی قیمتیں کم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں پیٹرول 272 روپے 95 پیسے جبکہ بلوچستان میں آج بھی پیٹرول 225 فی لیٹر میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟

صوبے کے بیشتر اضلاع کی مارکیٹوں میں ایران سے سمگل ہونے والا فروخت ہورہا ہے۔ اگر بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی بات کی جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر کے مختلف 300 سے زائد مقامات پر ایران سے سمگل ہونے والا پیٹرول فروخت ہو رہا ہے جس سے شہری بڑے پیمانے پر استفادہ کر رہے ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے رہائشی حمزہ جاہ نے بتایا کہ حکومت آئے روز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتی ہے جس سے سب سے زیادہ پریشانی طالب علم طبقے کو ہوتی ہے۔ تاہم گزشتہ ایک برس سے اپنی موٹر سائیکل میں ایرانی سمگل شدہ پیٹرول استعمال کر رہا ہوں جو نہ صرف جیب پر ہلکا ہے بلکہ اس کا معیار اور گیج بھی پیٹرول پمپس پر ملنے والے پیٹرول سے بہتر ہے۔

کوئٹہ میں رہنے والے ایک اور شہری احمد پناہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے میں اپنے آفس جانے کے لیے گاڑی استعمال کیا کرتا تھا لیکن اب پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے موٹر سائیکل پر دفتر آنا جانا شروع کیا۔ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے وہ بھی مشکل ہوگیا چنانچہ اب چند ماہ سے میں نے ایرانی پیٹرول کا استعمال شروع کیا۔

احمد پناہ کہتے ہیں کہ ایرانی پیٹرول کی قیمت پاکستانی پیٹرول سے 50 روپے کم ہے۔ اگر ہر لیٹر پر 50 روپے کا بڑا فرق ملے تو یہ کسی بھی شہری کے لیے بڑی بچت ہوتی ہے۔ شہر کے بہت سے لوگ ایرانی سمگل شدہ پیٹرول ہی استعمال کرتے ہیں۔

 ایران سے سمگل ہوکر آنے والا پیٹرول عوام تک کیسے پہنچتا ہے؟

 بلوچستان سے ایران کی 909 کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے۔ اسی سرحد سے تمام تر ایرانی پیٹرول زمینی راستے سے سمگل کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے ایرانی سرحد کم و بیش 20 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے جہاں سے غیر قانونی طور پر پیٹرول و ڈیزل سمگل ہوتا ہے۔ سمگل ہونے والا ایرانی پیٹرول اور ڈیزل 20 سے 25 لیٹر کے گیلن میں موجود ہوتا ہے۔ ذمباد چلانے والے ڈرائیور اگلے مقام پر منتقل کرتے ہیں۔

دوسرے مقام پر اس سمگل شدہ پیٹرول اور ڈیزل کوایک ڈپو میں جمع کیا جاتا ہے جہاں سے بسوں، ٹرکوں اور مقامی گاڑیوں پر دوسرے شہروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

کوئٹہ میں ایرانی پیٹرول و ڈیزل فروخت کرنے والے محمد علی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایران اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں یہی پیٹرول 150 روپے فی لیٹر میں فروخت ہوتا ہے تاہم پیٹرول کو سرحدی علاقے سے جتنا زیادہ دور جایا جائے گا، اس کی قیمت بڑھتی جاتی ہے

محمد علی کے مطابق کوئٹہ میں فروخت ہونے والا ایرانی پیٹرول و ڈیزل مستونگ کے راستے کوئٹہ لایا جاتا ہے۔ اس سمگل شدہ پیٹرول کو ہزار گنجی کے علاقے میں بڑے بڑے ڈرمز میں جمع کیا جاتا ہے۔ وہاں سے پھر تمام منی پیٹرول پمپ چلانے والے افراد اس پیٹرول اور ڈیزل کو خرید لیتے ہیں۔

محمد علی کا مزید کہنا ہے کہ کوئٹہ ڈپو میں اس پیٹرول کی قیمت 215 روپے ہوتی ہے جسے بعد میں 225 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp