قومی اسمبلی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 ترمیمی بل 2023 کو بغیر بحث و مباحثے کے منظور کر لیا جبکہ اپوزیشن اور اتحادیوں کی شدید مخالفت پر چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں جو ترامیم کی گئی ہیں اس کے مطابق اب ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور 30 روز میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں
آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترامیم کی گئی ہیں، آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کے تحت ایف آئی اے کو بطور تحقیقاتی ادارہ شامل کیا گیا ہے، بل میں بڑے تحقیقاتی اداروں کے کردار اور اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کو مزید مربوط بنانے کا ورک فریم شامل ہے۔ بل میں خفیہ معلومات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے کردار کو بھی شامل کیا گیا ہے، قومی سلامتی سے متعلق اہم معلومات کو مزید محفوظ بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
بل کے مطابق اب کسی بھی جگہ انٹیلیجنس ایجنسی ISI اور IB بغیر وارنٹ تلاشی یا آپریشن کر سکیں گی، معلومات تک غیر مجاز رسائی پر 3 سال قیدوجرمانہ ہو گا، خصوصی عدالت میں 30 دن میں ٹرائل ہو گا۔
بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم تصور ہوگا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاستی سیکیورٹی یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ ان جرائم پر 3 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں کی گئی ترامیم
آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے مطابق سیکشن 6 اے کے تحت جرم کی سزا 3 سال تک ہو گی اور 10 ملین تک جرمانہ ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ سیکشن 8 اے میں دشمن کی تعریف کی گئی ہے، جبکہ سیکشن 12 اے کے مطابق جرم کرنے والے سے تحقیقات ایف آئی اے کرے گا۔ اور ڈی جی کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ جے آئی ٹی تشکیل دے سکے۔ سیکشن 12 بی کے مطابق انکوائری کے دوران ملزم کے خلاف کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس سے حاصل کیا گیا مواد شہادت کے لیے قابل قبول ہو گا اور اسے عدالت میں پیش کیا جا سکے گا۔
سیکشن 9 کے مطابق کسی بھی جرم کی ترغیب دینا، کوئی سازش تیار کرنا یا اس میں معاونت کرنے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ سیکشن 11 سرچ وارنٹ سے متعلق ہے جس کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی وقت بغیر وارنٹ کے کسی بھی جگہ داخل ہوکر تلاشی لے سکتی ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ دے گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے ترمیمی بل پر اتحادیوں اور اپوزیشن کا احتجاج
قومی اسمبلی سے بحث و مباحثہ کے بغیر بل منظور کرنے پر جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا اکبر چترالی نے کہا کہ ضمنی ایجنڈے کو شامل کیا گیا اور اس بل کی کاپیاں ابھی فراہم کی گئی ہے، اگر اس بل میں کوئی ایسا قانون ہو جو ملک اور اسلام کے لیے نقصان دہ ہو تو کیا ہم اور آپ اللّٰہ کے دربار میں مجرم نہیں ہیں؟ بل کی اردو میں کاپی ہی نہیں کی گئی، یہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تو رضا ربانی سمیت دیگر ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج ریکارڈ کرایا، بل نامنظور نامنظور کے نعرے لگائے جس پر چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کو موجودہ حالت میں منظور کیا تو ملک ایک کھلی جیل بن سکتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری سے گرفتاریوں، تلاشی، ضبطی کے غیر معمولی اختیارات حاصل ہو جائیں گے، یہ بل دستور کے آرٹیکل 9 اور آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے، بل کے انسانی حقوق، انسانی آزادی، میڈیا کی آزادی کے اوپر اثرات پڑ سکتے ہیں، حکومت کو چاہیے اس بل کو کمیٹی میں بھیج دے۔