پاکستان کے معاشی حب کراچی کا حال یہ ہے کہ یہاں نالے منہ کھولے پڑے ہیں، مین ہول بِنا ڈھکن ہیں، سڑکیں گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ’پانی‘ مافیا کے قبضے میں ہے، اس صورتحال میں بھی یہاں کے باسی کھینچ تان کر زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن جب ان تمام امتحانوں کے بعد بھی اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے باعث کسی کی جواں سال بیوی اور چند ماہ کا بچہ نالے میں بہہ جانے کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ زندگی کیسی ہوگی۔
آج سے ٹھیک ایک سال قبل دانش اپنی بیوی اور 2بچوں کے ہمراہ شادمان نالا کے پاس سے گزر رہے تھے کہ پانی کے باعث اندازہ ہی نہیں ہو سکا سڑک کہاں ہے اور نالا کدھر ہے، دیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکل نالے میں بہنے لگی تو دانش اپنی بیٹی جو اس وقت ایک برس کی تھی کو بچانے میں کامیاب ہوا لیکن بیوی اور بیٹے کو نہیں بچا سکا۔
اطلاع ملتے ہی ایدھی رضاکاروں نے ماں اور بیٹے کی تلاش شروع کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کافی تگ و دو کے بعد ماں کی لاش نکال لی گئی لیکن ڈھائی ماہ کے بچے کی لاش نہ مل سکی اور دانش آج بھی اپنی بیوی اور چند ماہ کے بچے کو یاد کرتا ہے اور باقی ماندہ زندگی 2 سال کی بیٹی کے لیے وقف کر چکا ہے۔
یو ٹرن سمجھ کر مڑا تو معلوم ہوا کہ یہ نالا ہے
دانش نے وی نیوز کے ساتھ اپنا درد بانٹتے ہوئےکہا کہ 17 جولائی کو میں اورنگی ٹاؤن سے سرجانی کی طرف جا رہا تھا میری بیوی اور 2 بچے بھی ہمراہ تھے، میں یو ٹرن سمجھ کر مڑنے لگا لیکن بعد میں پتا چلا یہ کوئی نالا ہے لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہم نے 6 روز تک اپنا بیٹا ڈھونڈا، اس میں ایدھی فاؤنڈیشن کا بھر پور تعاون حاصل رہا۔ اب میری 2 سال کی بیٹی ہے جسے والدہ سنبھالتی ہیں۔
دانش کہتے ہیں کہ زندگی میں بیوی اور بیٹے کے جانے سے بہت فرق آگیا ہے، یہ بہت بڑی تکلیف ہے میرے لیے، اب فقط چاہتا ہوں کہ جو میرے ساتھ ہوا کسی اور کے ساتھ نہ ہو، نالا جلد بنایا جائے-
اس حوالے سے ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے وی نیوز کو بتایا کہ کراچی میں جو صورت حال ہے اس میں ایک سال قبل یہ واقعہ پیش آیا تھا، ایک نالا تھا جس کے اوپر چھت تھی نہ ہی کوئی دیوار، اس وقت دانش اپنی بچی کو تو بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن پانی کا بہاؤ اتنا تھا کہ وہ بیوی اور بچے کو نہیں بچا سکا۔ جب کہ اس بچے کی لاش آج تک نہیں ملی۔
فیڈرل ایکسیڈنٹ ایکٹ کے دعویٰ
ایڈووکیٹ عثمان فاروق کے مطابق ہم نے فیڈرل ایکسیڈنٹ ایکٹ 1855 کے تحت ڈیمجز فائل کی ہیں۔ تقریباً ساڑھے 11 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اس میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کا یہ جواب داخل ہوا ہے کہ یہ نالا ہمارا نہیں بلکہ کے ایم سی کا ہے۔ 6 سے 7 تاریخیں ہونے کے باوجود کے ایم سی اس حوالے سے عدالت میں جواب جمع نہیں کراسکی، تاہم اب عدالت نے کے ایم سی کو آخری موقع دیا ہے جواب جمع کرانے کا۔
یہ واحد واقعہ نہیں
یہ کراچی کا واحد واقعہ نہیں۔ اس سے قبل اس سے ملتے جلتے انگنت واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ کہیں گیس لیکیج کا دھماکا تو کہیں کرنٹ لگنے سے اموات، کہیں ٹریفک حادثات تو کچھ لوگ پانی یا نالوں کی نذر ہوجاتے ہیں، کوئی لُٹ جاتا ہے تو کوئی لُٹتے ہوئے اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ چوری چکاری تو اس شہر میں عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔
دوسری جانب برسراقتدار سیاسی جماعتیں اور ان کے ماتحت ادارے صرف وعدوں اور دعووں تک ہی محدود ہیں، جب کہ عوام آئے روز نت نئے آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہیں۔