جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل روکنے کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یقین ہے کہ ماتحت عدالت قانون کی پاسداری کریں گی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ قانون کے مطابق کیس منتقلی کی درخواست کے دوران ٹرائل کورٹ فیصلہ نہیں دے سکتی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کیس منتقلی کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔
عدالتی استفسار پرعمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے وکیل نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں کل چار درخواستوں پر سماعت ہوچکی ہے۔ ہائیکورٹ سے استدعا کی ہے کہ کیس ٹرائل کورٹ کے جج اپنا مائنڈ پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔ کیس کسی دوسرے جج کو منتقل کردیا جائے۔ ٹرائل کورٹ نے ہماری گواہان کی فہرست کو بھی مسترد کردیا ہے۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے دریافت کیا کہ کیا ہائیکورٹ نے آپ کو کوئی عبوری ریلیف دیا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ نے عبوری حکم جاری نہیں کیا۔ ممکنہ طور پر ہائیکورٹ اج میری گزارشات پر حکم سنائے گی خواجہ حارث
جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس زیر التوا ہے، درخواست گزار سپریم کورٹ سے اس موقع پر فیصلہ نہیں چاہتے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی تسلیم کیا کہ کیس منتقلی کی درخواست پر فیصلہ ہونے تک ٹرائل کورٹ حتمی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
وکیل خواجہ حارث بولے؛ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں تمام درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے تک سپریم کورٹ سے فیصلہ آئے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے ہی قانون سے بالاتر ہو کر کیس سن رہے ہیں، اس کیس کو نمٹائیں گے، جب مروجہ طریقہ کار ہوگا تب اس کیس میں اپیلیں سن لیں گے، قانون واضح ہے کہ کیس منتقلی کی درخواست پر فیصلے تک ٹرائل کورٹ فیصلہ نہیں دے سکتی۔
سپریم کورٹ نے ان ریمارکس کے ساتھ توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست نمٹادی۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت سے قبل سپریم کورٹ نے نئی کاز لسٹ جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کرنے والا 3 رکنی خصوصی بینچ تبدیل کردیا تھا۔ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کی جگہ جسٹس حسن اظہررضوی کو بینچ میں شامل کیا گیا تھا، جب کہ جسٹس مسرت ہلالی پہلے ہی بینچ کا حصہ تھیں۔
واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق انہوں نے اپنے خلاف ہونے عدالت عظمٰی میں جاری کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے مطابق، ان کے خلاف فضول اورغیرسنجیدہ شکایات عدلیہ کے خلاف ایک بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے لکھا ہے کہ ان کیخلاف جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت میں زیادہ ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔