جب امجد اسلام امجد کا ڈرامہ وارث پی ٹی وی پر چلتا تھا تو اس وقت پاکستان ہی نہیں بھارت کے شہروں کی سڑکیں بھی ویران ہو جاتی تھیں۔ شہر کی سڑکیں آج بھی ویران ہیں مگر اب کی بار یہ ویرانی وارث کے ڈرامہ نگار کی مرگ ِناگہانی کی ہے ۔
امجد انکل کے انتقال کے بعد سینکڑوں پیغامات آئے۔کئی ممالک میں اس اچانک موت کا غم منایا گیا۔ درجنوں ٹی وی پروگرام ہوئے، ہر صاحب ِعلم اور صاحب ِرتبہ نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن یہ صرف لفظ تھے، کیا لفظ اس نقصان کا مداوا ہو سکتے ہیں؟ کیا لفظ گھر والوں کے آنسو پونچھ سکتے ہیں؟ کیا لفظ اس گھاؤ پر مرہم رکھ سکتے ہیں؟ کیا لفظ ان کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں؟
انکل امجد نے ساری عمر اس بات کا سبق دیا کہ لفظ بہت بڑی طاقت ہوتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے بُرج گرا سکتے ہیں، یہ تلوار سے گہرا زخم لگا سکتے ہیں، یہ نفرت کو مٹا سکتے ہیں، یہ کسی بھی نظریئے کسی بھی سوچ کو جاوداں بنا سکتے ہیں۔
جنازے سے لےکر قل کی رسومات تک چاروں طرف لفظ ہی لفظ بکھرے تھے۔ غم میں ڈوبے ہوئے لفظ، ماتم کرتے لفظ، آنسو بہاتے لفظ، سسکیاں بھرتے لفظ، اداس ہوتے لفظ۔ انکل امجد کا کبھی بھی لفظ پر اعتبار ختم نہیں ہوا تھا۔ معاشرے کی اذیت ناک سچائیاں ہوں، تلخ حقائق ہوں، جا گیردارانہ نظام کا استبداد ہو، کسی خاتون کی الم ناک داستان ہو، وہ لفظ کی طاقت پر یقین رکھتے تھے، اس کی تعلیم دیتے تھے، اسی کی کہانی سناتے تھے۔
جن لوگوں سے جنازے پر ملاقات ہوئی ہر ایک کے پاس پُرسے کے اپنے لفظ تھے۔ ہر شخص اپنے ہی الفاظ میں ان سے قربت کا اظہار کرتا اور شخصیت کو خراج بھی پیش کرتا۔خوش مزاجی کے قصے سنا کر رو بھی پڑتا اور دوستانے کی کہانی سنا کر آبدیدہ بھی ہو جاتا۔
ان کے چاہنے والوں میں مشاہیر بھی تھے، مقرر بھی، مذہبی شخصیات بھی، سیاسی عہدیدار بھی، شعر سے محبت کرنے والے طلبہ بھی اور محبت کی نظمیں پڑھ کر جوان ہونے والے عشاق بھی، سب کے دل ٹوٹے ہوئے تھے، سب کو کہنے کے لیے لفظ نہیں مل رہے تھے،سب بہت سے واقعات، بہت سے قصے سنانا چاہتے تھے مگر لفظ سب کے لبوں پر رک رہے تھے، آنسو لفظوں کا قصہ سنا رہے تھے۔
میں نے ان کے جنازے پر چند لوگوں کے جو الفاظ سنے، یہ لفظ دہرانا مجھ پر قرض ہے۔ ایک معروف شاعر کہنے لگے ’اب ہمارے جنازوں پر آنے کے لیے کوئی بڑا آدمی نہیں بچا‘۔ کسی نے کہا ’آج اردونظم یتیم ہو گئی‘۔ کسی نے افسوس کا اظہار کیا ’یہ نقصان پاکستانی ادب کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے ادب کا ہے‘۔ کسی نے کہا ’چوں کہ وہ انتقال سے پہلے عمرے کے لیے گئے تھے اس لیے وہ بارگاہ ِ ایزدی سے پروانہ رخصت لے آئے تھے‘۔
کسی نے کہا ’اب کبھی بھی لاہور، لاہور نہیں رہے گا‘۔ کسی نے اس طرح غم کا اظہار کیا کہ ’اب محفلوں کی رونق رخصت ہوئی‘۔ کوئی گویا ہوا کہ ’یہ اس دہائی کا یہ سب سے بڑا ادبی سانحہ ہے‘۔ کوئی کہنے لگا ’اردو ڈارمہ اب دفن ہوا‘۔ کسی نے کہا ’اب ایسی نظمیں لکھنے والا کوئی نہیں آئے گا‘۔ کسی نے کہا ’عجیب شخص تھا پورا ملک اداس کر گیا‘۔
لیکن یہ سارے لفظ تھے۔ وہی سارے لفظ جن کو انکل امجد انمول خزانہ کہتے تھے، انہی لفظوں سے وہ محبت کی نظمیں بُنتے، انہی لفظوں سے وہ ڈراموں کے ڈائیلاگ لکھتے، انہی لفظوں سے وہ سفر ناموں کے شگفتہ احوال لکھتے، انہی لفظوں سے غزل کے نت نئے پیرائے تخلیق کرتے، انہی لفظوں سے وہ ان نظموں کے تراجم کیا کرتے کہ جن سے واقفیت ہمیں انہی کے تراجم سے ہوئی۔ انہی لفظوں سے وہ قہقہے بکھیرتے، انہی لفظوں سے وہ اداس چہروں پر خوشیوں کی پھلجھڑیاں چھوڑتے، انہی لفظوں سے وہ محبت کے سارے درس کشید کرتے، انہی لفظوں وہ دوستوں کا مان رکھتے، انہی لفظوں سے وہ رشتوں کی آن بان رکھتے ۔
لفظ موقع اور محل کے حوالے سے مفہوم تبدیل کرتے ہیں۔ سینکڑوں دفعہ انکل امجد کی یہ نظم سنی کہ ’اگر کبھی میری یاد آئے تو ۔۔۔‘ مگر اس کا یہ مفہوم آج تک وا نہیں ہوا تھا۔ اب جو نظم پڑھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جس کے قدموں میں ستاروں نے نخل فلک سے ٹوٹ کر گرنا تھا وہ نئے جزیروں کے سفر پر جا چکا ہے۔
وہ استاد بھی رہے۔ ساری عمر تدریس میں گزاری مگر ان کے لہجے میں کبھی وہ بزرگانہ کرختگی نہیں آئی جو بیشتر مدرسین کی شخصیت کا مستقل حصہ ہوتی ہے۔ وہ جب استاد تھے تب بھی دوست بن کر دکھاتے تھے، جب دوست ہوتے تو اس رشتے کو آخری حد تک نبھاتے تھے۔
انھوں نے قریباً ہر شعبہ ادب میں کام کیا، ہر شعبے میں کمال کیا، ہر جگہ اپنے علم کا جواز دیا۔ وہ محفلوں میں جب گفتگو کرتے تو محفل دیر تک زعفران زار رہتی ، دیر تک لطیفے گونجتے۔ لیکن یہ سب بھی تو لفظ تھے۔انکل امجد نے ہمیشہ یہ بتایا کہ لفظ عظیم ہوتے ہیں، قابلِ تکریم ہوتے ہیں، ان کا احترام لازم ہے، یہی مدوا اور یہی مرہم ہوتے ہیں۔
آج انکل چلے گئے ہیں اور ان کی دو صاحبزادیوں روشین عاقب، تحسین ناصر اور بیٹے علی ذیشان پر کوئی لفظ کارگر نہیں ہو رہا، کسی لفظ سے تسلی نہیں ہو رہی، یہ تینوں کچھ کہہ نہیں رہے مگر آنسوؤں کے ریلے میں سوچتے ضرور ہوں گے کہ ’پاپا آپ تو کہتے تھے کہ لفظ سب کچھ ہوتے ہیں تو آج تسلی کے لفظوں کے اثر سے آنسو رک کیوں نہیں رہے؟ یہ اشک تھم کیوں نہیں رہے‘۔