پاکستان کا ’نندنا قلعہ‘کس سائنسی ایجاد کے لیے البیرونی  کا مسکن رہا؟

اتوار 6 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی دُنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں میں سے ایک تھے جن کا سب سے بڑا کارنامہ زمین کا ’قطر‘ معلوم کرنا تھا۔

البیرونی کے پاکستان سے متعلق دلچسپ انکشاف یہ ہوا تھا کہ اس عظیم مسلمان سائنسدان نے زمین کا ’قطر‘ پاکستان کے سالٹ رینج علاقے میں واقع تاریخی قلعہ ’نندنا‘ میں رہتے ہوئے معلوم کیا تھا۔

یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ البیرونی نے زمین کا قطر معلوم کرنے کے لیے قرون وسطیٰ کا جو سائنسی تکنیکی طریقہ کار استعمال کیا اس کے اور جدید دور کے اعداد و شمار میں بہت کم فرق پایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ زمین کا قطر البیرونی کی بے شمار سائنسی خدمات اور دریافتوں میں سے ایک ہے۔ ’نندنا‘ قلعہ ضلع جہلم کے پنڈ دادن خان میں واقع ہے۔ یہ تاریخی قلعہ کھیوڑہ نمک کی کانوں سے 6کلو میٹر، ایم ٹوموٹر وے کے مشرق کی جانب 24کلو میٹر اور جہلم شہر سے 85کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔

مسلم سائنسدان البیرونی سے متعلق قلعے کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر سابق وزیر اعظم عمران خان نے فروری 2021 کے آخری ہفتے میں قلعہ ’نندنا ‘ کا فضائی جائزہ لیا اور اس کی بحالی کے احکامات جاری کیے تھے۔

’نندنا قلعہ‘ کی بحالی کا کام پاکستان کے نامور ماہر آثار قدیمہ محمد حسن جو محکمہ آثار قدیمہ پنجاب میں ڈپٹی ڈائریکٹر (جنوبی پنجاب) کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں کو سونپا گیا تھا۔

آج کل محمد حسن کی سربراہی میں محکمہ اثار قدیمہ پنجاب کی ٹیم قلعہ ’نندنا‘ کے آثار کی تحقیقات اور بحالی میں مصروف عمل ہیں ۔ قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ایم حامد کی زیر نگرانی طلبا کی ایک ٹیم بھی ان معاونت کر رہی ہے۔

سائنسی تاریخ کے بانی کہلانے والے جارج سارٹن البیرونی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ البیرونی کا کیا ہوا کام انہیں ہر زمانے کے عظیم  سائنسدانوں میں ممتاز بناتاہے۔

مشہور تاجک مصنف اور محقق بوبو جان غفوروؤ یونیسکو کورئیر میگزین میں لکھا کہ البیرونی سائنسی سوچ میں اس قدر آگے تھے کہ ان کے دور کے سائنسدانوں  کے لیے ان کی اہم ترین دریافتیں اس وقت ان کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔

اٹلی کے محقق ایمیلیاکیرولینا سپاراوینا نے بھی اپنے ایک تحقیقی مکالے میں ’البیرونی کی سائنس‘ میں بوبوجان غفوروؤ اور جارج سارٹن کے البیرونی کے بارے میں کہی ہوئی باتوں کا حوالہ دیا ہے۔ایمیلیاکیرولینا سپاراوینا کا یہ مکالہ دسمبر 2013 میں بین الاقوامی سائنسی جرنل میں چھپا تھا۔

ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی (973-1048) ہزار سال قبل وسطی ایشیا میں رہتے تھے۔وہ کاٹھ،خوارز م میں پیدا ہوئے۔

خوارزم کا یہ علاقہ تہذیب اور بہت سی بادشاہتوں کا مسکن رہا ہے۔مگر آج کل یہ علاقہ ازبکستان، قازقستان اور ترکمانستان کہلاتا ہے۔

البیرونی نے کئی علاقوں کا سفر کیا جس میں فارس اور ازبکستان بھی شامل ہیں ۔ سلطان محمود غزنوی کے بخاراکو فتح کرنے کے بعد وہ غزنی چلے گئے جو اُس وقت غزنوی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔

ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی فلکیات، ریاضی اور فلسفہ کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے طبیعات، قدرتی سائنس کا بھی مطالعہ کیا۔ وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے زمین کاقطر معلوم کرنے کا سادہ فارمولا پیش کیا تھا۔

ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی نے اس دور میں اس بات کو ممکنات میں قرار دیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ ایمیلیاکیرولینا سپاراوینانے اپنے مکالے میں لکھا ہے کہ البیرونی کے نظریات اور تجربات تقریباً تمام سائنس کا احاطہ کرتے ہیں۔

انسانی زندگی سے متعلق پہلے یورپ مذہبی بنیاد پرستی میں مبتلا تھا لیکن البیرونی اُس وقت سائنسی فکر میں یورپ سے بہت آگے تھے۔

محققین کہتے ہیں کہ قلعہ ’نندنا‘ پر ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی نے ٹرگنومیٹری اور اپنے بنائے ہوئے آلے کی مدد سے پہلے قلعے کے شمال میں ایک پہاڑی کی بلندی کی پیمائش کی پھر وہ خود پہاڑی پر چڑھے اور ڈوبنے سورج کے زاویہ کی پیمائش کی۔

ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی نے اس پیمائش کو قمری مِیل کو 1.225947کو انگریزی مِیل تصور کرتے ہوئے زمین کا قطر 3928.77انگریزی مِیل دریافت کیا۔ جو کہ زمین کے اوسط قطر (3847.80میل) سے صرف 2فیصد مختلف ہے۔

’نندنا‘ قلعہ پوٹھوہار کی ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے اور یہ اپنی ثقافتی، سائنسی اور سیاحتی اہمیت کے پیش نظر مقبول ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے جاری کردہ احکامات کے صرف چند ماہ بعد ہی 126ملین روپے کا پروجیکٹ ڈیزائن کر کے اس پر مئی میں کام شروع کر دیا گیا تھا۔

ماہر آثار قدیمہ محمد حسن نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت ’نندنا‘ قلعے پر موجود 2مندروں، ایک مسجد ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی کی آبزرویٹری اور قلعے کی فصیل کو محفوظ کیا جائے گا۔

’نندنا‘  قلعہ باغانوالا گاؤں کے قریب واقع ہے جو زمین سے تقریباً 1600فٹ بلندی پر واقع ہے۔ پنجاب کا بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ آج کل ایک راستہ بنا رہا ہے جو باغانوالا سے پہاڑی کے گرد گھومتا ہوا قلعہ کی طرف جائے گا۔ایک اندازے کے مطابق قلعے تک پہنچنے کے لیے 1.5 سے 2کلو میٹر تک چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے۔قلعے کی جانب جانے والے اس راستے کو مزید کشادہ اور سہولیات سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔

ابتدائی آثار قدیمہ کی تحقیقات میں پتھر کے بنے ہوئے چھوٹے بڑے مکانات قلعہ کی فصیل کی باقیات غزنوی اور ہندو شاہی دور کے سکے برتن اور پتھر کی بنی ہوئی اشیا برآمد ہوئی ہیں۔

محمد حسن نے بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ روز اس پہاڑی پر پیدل چل کر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آثار کے تحفظ کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور دوسرا مرحلہ مارچ 2022 میں شروع ہو گا اور منصوبہ جون 2022تک مکمل ہو جائے گا۔جس کے بعد یہ سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا جب کہ سائنس میں دلچسپی رکھنے والے طلبا کے لیے یہ قلعہ خصوصی دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp