ویسے تو پنجابی کے شہرہ آفاق صوفی شاعر میاں محمد بخش نے کیا آفاقی لائن لکھی ہے کہ
’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا‘
مطلب یہ کہ دشمن اگر مرے تو خوشی نہیں کرنی چاہیے، دوستوں اور اپنوں نے بھی ایک دن مر جانا ہے۔ عمران خان تو دشمن نہیں تھے وہ قوم کے متفقہ ہیرو رہے ہیں۔ ایک زمانہ ایک زمانے تک ان کا میاں نواز شریف سمیت عاشق اور گرویدہ رہا ہے۔
5 ،اگست2023 کو اسلام آباد کی ایک سیشن کورٹ نے انھیں توشہ خانہ کیس میں 3 سال کی قید سنا دی اور اسی دن انہیں گرفتار کرکے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا۔ چند ماہ قبل 9 مئی کو جب انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ سے رینجرز نے گرفتار کیا تو ملک گیر احتجاج پھوٹ پڑا تھا۔ ان کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے جلاؤ گھیراؤ کیا اور یہاں تک کہ آرمی کے صدر دفتر جی ایچ کیو اور فیض آباد پنڈی میں واقع انٹیلی جنس کے دفتر حمزہ کیمپ پر بھی مبینہ طور پر دھاوا بولا۔
لاہور میں تو کور کمانڈر ہاؤس کو جلا کر حد ہی کر دی گئی۔ بہرحال اگلے روز عمران خان سپریم کورٹ میں ایک شاہانہ انداز میں پیش ہوئے اور انہیں رہا کر دیا گیا۔
یہاں تک تو کہانی خان کی مرضی اور منشا کے مطابق چلتی رہی مگر پھر اس میں بدلاؤ آگیا۔ کارکنوں اور رہنماؤں کو جیل میں ڈالا جانے لگا، پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ پارٹی کے نامی گرامی رہنما پارٹی کو چھوڑنے لگے۔ جو اپنے ضمیر، اصول، نظریاتی وابستگی یا سیاست بچانے کی بات کرکے پارٹی کا ساتھ دینے کا کہہ کر رہے تھے انہیں بتا دیا گیا کہ پارٹی رہے گی تو ان سب باتوں کا جواز رہے گا لہذا وقت کی چال اور حالات کی نہج کو سمجھیں اور فیصلہ کریں۔ بصورتِ دیگر فیصلہ تو فیصلہ ساز کر چُکے۔
خبر یہ ہے کہ عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے کرکے تحریک انصاف کو کالعدم پارٹی قرار دے دیا جائے گا اور اگلا الیکشن بلے کے نشان پر کوئی نہیں لڑ سکے گا. باقی رب جانتا ہے.
— Akmal Ghumman (@AkmalGhumman) July 9, 2023
عمران خان کی گرفتاری پر یقینا ان کے سیاسی مخالفین خوش ہوں گے جس طرح خان صاحب ان کی گرفتاری پر خوش ہوتے تھے لیکن عمومی طور پر ایک حُزن کی کیفیت ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے کسی یونانی دیو مالائی کردار یا دیوتا کی موت ہوگئی ہو۔ خدا خان صاحب کو لمبی زندگی دے لیکن بظاہر ان کی سیاسی زندگی کا اختتام ویسے ہی لگتا ہے جیسے 1999 میں نواز شریف اور شہباز شریف اس وقت کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے خاموشی کے ساتھ اہل و عیال سمیت سعودی عرب روانہ ہو گئے تھے۔
تب لگتا تھا کہ نواز شریف نے جلا وطن ہونے کا معاہدہ کرکے خود کُشی کی ہے مگر وقت کے ساتھ حالات بدل گئے۔
تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کے بعد ایک دفعہ پھر ان کی کشتی حالات کے بھنور میں ایسی پھنسی کہ اقتدار ریت کی طرح ان کی مُٹھی سے پھسل گیا۔
سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑنے کا دعویٰ کرنے والے شہباز شریف آج ان کے صفِ اول کے اتحادی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں مستقل دوستی اور دشمنی نہیں ہوتی۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔
کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر بندوبست یہ لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہوسکتا ہے کہ مقتول صحافی ارشد شریف کے قتل کیس میں بھی آگے چل کر انہیں کسی مقدمے کا سامنا کرنا پڑے، جلد ان کی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا جائے یا اس پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ بھی انتظام کیا جا رہا ہے کہ اگلا الیکشن کوئی امید وار بلّے کے نشان پر نہ لڑ سکے۔
خدا نہ کرے ایسا ہو مگر پی ٹی آئی کے ایک سابق ضلعی صدر کی ارشد کے قتل کے بعد رائے تھی کہ عمران خان، ارشد شریف قتل کیس میں چالان ہوں گے.
میری رائے میں عمران خان مزاجاً کسی بھی قتل کی سازش میں شامل نہیں ہو سکتے.— Akmal Ghumman (@AkmalGhumman) June 6, 2023
جہاں تک الیکشن کے انعقاد کی بات ہے تو ایک الیکشن ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ خان اس وقت کمزور ترین پچ پر آچُکا ہے۔ شاید تیسرے درجے کی قیادت عمران خان کے نام پر خال خال، کہیں کہیں الیکشن لڑ ہی لے لیکن وہ اپنے ووٹروں کو شاید صحیح طرح سے پولنگ اسٹیشنز تک لا ہی نہ پائے گی۔
اگر الیکشنز کا انعقاد ملتوی ہوتا ہے تو خدشہ یہ ہوگا کہ زخمی کپتان پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنے مخالفین کو چیلنج کرنا نہ شروع کر دے۔ یقیناً پھر انتخابی نتائج بھی حسبِ منشا نہ ہونے کا امکان ہے۔ لہذا الیکشن کا انعقاد اپنے وقت پر ہونا ہی بہترین فیصلہ ہوگا۔ اس بات کا ادراک فیصلہ سازوں کو بھی ہے۔
بس دعا ہے کہ جو بھی ہو، اس کے نتائج ملک و قوم کے لیے بہتر ہوں اگرچہ اس کے آثار کم ہی ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری اور آئندہ حالات کا منظرنامہ پریشان کُن سا ہے۔ ان کے مخالفین تو خوش ہوں گے مگر ایک وقت تھا کہ پورا ملک ان کا دیوانہ تھا۔
تقریباً 20 سال وہ بطور کرکٹر لوگوں کے ہیرو رہے۔ 10 سال کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے اور اسی حثیت میں کرکٹ کا عالمی کپ بھی جیتا۔ پھر کینسر ہسپتال جیسا مشکل کام بھی کر ڈالا۔ ملک اور بیرونِ ملک لاکھوں کروڑوں ان کے مداح تھے۔ عام لوگ کیا فلمی اسٹارز، سیاست دان اور دیگر با اثر لوگ بھی ان سے ملنا یا تعلق استوار کرنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
سینکڑوں ، ہزاروں ان کے انٹرویوز ہوئے ہوں گے۔ وہ جس محفل میں بھی جاتے مہمانِ خصوصی ہی ہوتے۔ اخبارات کے ہزاروں فیچرز، خبریں اور کالم ان کے ذکر پر مبنی ہوتے۔ کتنے ہی ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں میں عمران خان کا تذکرہ ہوتا۔ پھر 20 برسوں تک وہ کرکٹ میچوں کے توسط سے ہر گھر کے ٹی وی پر جلوہ افروز ہوکر ہر گھر کے ایک طرح سے فرد رہے۔
جنرل ضیاء کے سیاہ دور میں عوام کو ہر طرح سے غیر سیاسی بنانے کے چکر میں انہیں کرکٹ کا دیوانہ بنا دیا گیا۔ ہاکی سمیت دوسری کھیلیں دبتی چلی گئیں۔ کرکٹ مقبول کھیل ہوگیا اور کرکٹرز ہیرو بن گئے یہاں تک کہ عمران خان کو جنرل ضیا نے وزارت کی پیشکش بھی کی۔
اچھی پرفارمنس اپنی جگہ مگر جب سے عمران خان پیدا ہوا، وہ قسمت کا دھنی تھا۔ بقول نجم سیٹھی کے وہ دراز قد، خوبرو جوان اپنے لمبے بالوں سمیت بال کرانے کے لیے وکٹ کی جانب بھاگتا تھا تو لگتا تھا کہ شیر دوڑ رہا ہے۔ 2 دہائیوں تک کرکٹ کی دنیا میں ہیرو رہنے والا، ملک کا پہلا کینسر ہسپتال بنا کر سُپر ہیرو بن گیا۔ اس سُپر ہیرو پر قدرت ابھی بہت مہربان تھی، اس نے جو سوچا، جو چاہا پا لیا۔ وہ ملک کا وزیرِ اعظم بھی بن گیا۔ بندوبست بھی یہی تھا اور ہرطرف یہی منادی تھی کہ ’ہم نہیں تو کون؟‘ دور تلک کوئی متبادل نہ تھا۔ مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور بازی بھی پلٹ گئی۔ 5 دہائیوں تک ہیرو رہنے والا آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔
عمران خان اور الطاف حسین کی کہانی میں عنوان بس ایک نظر آتا ہے،
"دیوتا کی موت"— Akmal Ghumman (@AkmalGhumman) May 25, 2023
وہ جہاں بھی گیا داستان چھوڑ آیا۔ خدا نہ کرے وہ خود داستان بن جائے۔ شاید وہ فوراً نہ مانے مگر ہو سکتا ہے ایک دن وہ اُکتا کر دیس چھوڑ جانے پر راضی ہو جائے۔ کچھ بھی ہو وہ جو ہیرو تھا، جسے کسی دیو مالائی کردار یا یونانی دیوتا کی صورت دی گئی تھی یا وہ تھا ہی ایسا مگر بظاہراس کی سیاست کا انجام ہونے کو ہے۔ کچھ بھی ہو، کسی دیومالائی کردار کی فسوں کاری رہے یا نہ رہے مگر اس کی موت نہیں ہونی چاہیے۔
دیوتا کی موت لوگوں کی حوصلے توڑ دیتی ہے، امید کی شمع گُل کر دیتی ہے۔ کہانی میں ہیرو کے کردار کو موت کے گھاٹ اُترتا دیکھ کر دیکھنے والے دکھی ہوجاتے ہیں۔ کہانی میں دیوتا کا انجام موت نہیں ہونا چاہیے۔