لائبریری کا سنتے ہی ذہن میں کتابوں کا خیال آتا ہے لیکن آج آپ کو ایسی لائبریری سے متعارف کراتے ہیں جس کے بارے میں آپ نے کبھی تصور نہیں کیا ہوگا جس کی ایک ایک ڈسک یا کیسٹ چند لمحوں میں آپ کو پاکستان کے ماضی میں لے جانے کا باعث بن سکتی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ابصار احمد اپنا انوکھا شوق پورا کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گئے کہ جہاں وہ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ساڑھے 4 ہزار ملی نغموں کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ ’یہ دنیا کی وہ واحد لائبریری ہے جہاں کسی بھی ملک کے اتنی بڑی تعداد میں ملی نغمے موجود ہیں۔‘
ابصار احمد کہتے ہیں کہ 4 سال کی عمر میں انہیں جنید جمشید کے گائے ہوئے ہر دلعزیز گانے ’دل، دل، پاکستان‘ سننے کے بعد یہ شوق پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس نوعیت کے تمام گانوں کو سنا جائے۔
’پاکستان 1947 میں وجود میں آیا تھا تو ذہن وہیں تک گیا، لیکن ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ہمارا سب سے پہلا قومی ترانہ 1911 میں گایا گیا جو کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری پر مبنی تھا اور استاد پیارے صاحب نے ریکارڈ کرایا تھا جس کے بول تھے چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا، مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔‘
ابصار احمد سے جب انکی لائبری دیکھنے کا اصرار کیا گیا تو وہ اپنے کمرے کے اندر ایک اور اسٹور نما کمرے میں لے گئے جہاں دروازہ کھلتے ہی ایک دوسری دنیا میں پہنچنے کا احساس جاگزیں ہوگیا۔ جہاں گراموفون کی لاتعداد ڈسکس پرانے غلافوں میں محفوظ رکھی تھیں وہیں لاتعداد کیسیٹس اور گراموفونز بھی موجود تھے۔
تھوڑی دیر میں وہاں موجود آڈیو ریکارڈز دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آپ علامہ اقبال کی شاعری پڑھ رہے ہوں، صابری برادرز اور ملکہ ترنم نورجہاں کو سن رہے ہوں۔
ابصار احمد کہتے ہیں کہ 1956 میں جب ہمارا آئین بنا تو اس وقت مشرقی پاکستان سے ایک ملی نغمہ پیش کیا گیا جو غلام مصطفی نے لکھا تھا: پاکستان زندہ باد۔
’اس نغمے کی اصل ڈسک انکی لائبریری کی زینت ہے جو بعد میں انہیں بنگلہ دیش سے موصول ہوئی۔ اس وقت بنگال کی موسیقی کا بڑا چرچا تھا اور ملی جوش و جذبے کے ساتھ انہوں نے یہ نغمے بنائے تھے۔‘
غلام فرید مقبول صابری کا ایئر فورس کے لیے گایا ملی نغمہ ہو یا 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم بیداری کے ملی نغمہ ’اے قائد اعظم تیرا احسان ہے، تیرا احسان‘ بھی ابصار احمد کی منفرد میوزک لائبریری کا حصہ ہے۔
اس لائیبری میں بہت کچھ ہے لیکن ڈھونڈنے سے ملے گا جیسا کہ ہماری نظر پڑی ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں تسنیم کاظمی کی نظم جیسے سن کر لگتا ہے ہے ارض فلسطین آج بھی ہمیں پکار رہا ہے۔
’اسے موجودہ دور میں بھی اگر سنا جائے تو وہی حالات محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ اس کے بول ہیں کہ ’دشمن کے ہاتھوں قبلہ اول تو جل چکا قرآن کے محافظوں قرآن جل نہ جائے‘۔
بات کی جائے 1965 کی تو ایم ایم عالم کے لیے گایا گیا احمد رشدی کی آواز میں ایک نایاب ملی نغمہ بھی نظر سے گزرا جس کے بول ہیں ’ناز ہے پاکستان کو تجھ پہ، اے مشرق کے لعل، اے شیر بنگال‘۔
1971 جب ہمارے فوجی جوان قید ہوئے تو اس وقت جمیل الدین عالی صاحب نے نغمہ تحریر کیا کہ ’اے دیس کی ہواؤں، سرحد کے پار جاؤ اور ان کو لے کر آؤ‘۔ 1971 کی ہی ایک اور ریکارڈ ڈسک بھی سامنے آئی جب بھارت نے کراچی کو نشانہ بنایا تھا تو اس وقت ریڈیو پاکستان میں ریکارڈ کیے گئے نغمے ’مرحاب اے کراچی مرحبا‘ کو کافی پذیرائی ملی تھی۔
چھان بین کے بعد ہمیں ایک اور یادگار ڈسک نظر آئی جس کے کور پر لکھا تھا ’جیوے جیوے پاکستان‘ اور یہ وہ نغمہ ہے جسے ہمارے قومی ترانے کے بعد ایک یادگار اہمیت حاصل ہے۔ یہ نغمہ اس وقت سامنے آیا جب مشرقی پاکستان میں جے بنگلہ کے نعرے لگنے لگے اور پاکستان بھر میں نسلی تعصب پروان چڑھ رہا تھا یہ نغمہ جمیل الدین عالی نے لکھا تھا۔
ابصار احمد کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ملی نغموں کی تعداد زیادہ تو ہوگئی ہے لیکن ان کے معیار خاص طور پر شاعری میں بہت فرق آچکا ہے۔