ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنے کا شوق

بدھ 9 اگست 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب سے میں اس صحافت کے شعبے میں آیا ہوں ہمیشہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے لڑتے اور مخالفین کی جڑیں کاٹتے ہی دیکھا ہے۔ ہمارے بزرگ ہمیشہ ایک مثال سنا کر یہ سمجھایا کرتے تھے کہ کبھی اپنی ایک بوٹی کے لیے دوسرے کی بھینس ذبح نہ کرنا (اپنے معمولی فائدے کے لیے دوسرا کا نقصان نہ کرنا)۔ لیکن ان سیاستدانوں کو تو ہم نے ہمیشہ ہی یہ عمل دوہراتے ہی دیکھا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ اپنی باری کے چکر میں غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں خوشی خوشی استعمال ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

اور اس میں آپ کوئی فرق نہیں رکھ سکتے کہ فلاں جماعت یا لیڈر بہت بڑا جمہور پسند اور سویلین بالادستی کا چیمپئین ہے۔ دراصل جب یہ سویلین بالادستی کا نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں تب بھی یہ غیر جمہوری طاقتوں کو ہی پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ’ساڈے ول وی تک سجنا‘۔ نواز شریف ہو، آصف علی زرداری ہو یا عمران خان سب ’ڈھول سپاہیا‘ کی نظر کرم کے ہی مشتاق رہے ہیں۔

نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہو، زرداری کا اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان یا عمران خان کا حقیقی آزادی کا سراب، سب کی منزل کسی نہ کسی نعرے کے ذریعے اُن کی شہہ پر تخت اسلام آباد پر براجمان ہونا ہی ہوتا ہے۔ دوسری جماعتوں کے لیڈران کی شکایت تو دور کی بات یہ سیاستدان اپنی پارٹی لیڈران کی بھی جڑیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ جب بھی پنڈی کے دربار میں ان کی حاضری ہو۔ اب خود بتائیں جب ان کا عمل یہ ہو تو کوئی دوسراانہیں بھلا کیوں نہ استعمال کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشے۔

یہ اُن کو خوش کرنے کے لیے ہر قسم کی قانون سازی تک کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ چاہے بعد میں خود اسی قانون کے شکنجے میں ہی کیوں نہ پھنس جائیں۔ پیکا آرڈیننس ہی کی مثال لے لیں۔ ن لیگ نے اپنے پچھلے دور حکومت میں اسے منظور کیا اور پھر آپ نے دیکھا کیسے اس قانون کا مخالف آوازوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ماضی سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ایسی ترامیم لے آئے ہیں جو کل کو انہی کے گلے کی ہڈی بنیں گی۔

سیاسی تدبر، بصیرت اور رواداری تقریباً ناپید ہوچکی ہے کوئی لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، بات سننا تک گوارا نہیں کر رہے۔ اب عمران خان کو ہی لے لیں کہ جب تک ان کو یہ باور تھا کہ وہ پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں وہ کسی مخالف سیاستدان کے ساتھ سلام کرنا گوارا نہیں کر رہے تھے اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ اب وہ گرفتار ہونے والے ہیں تو تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر بات چیت کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ سیانوں کا ایک قول ہے کہ ’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘ یعنی ہر کام اپنے وقت پر ہی کرنا ٹھیک ہوتا ہے۔

کاش یہ مذاکرات کی اپیل وہ اپنے دور حکومت یا کم از کم حکومت جانے کے بعد ہی کرلیتے۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ لیڈر قوم کی ہی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے جیسی قوم ویسا لیڈر۔ ہماری قوم کی بھی نفسیات ایسی ہی ہیں کہ جب تک ملک الموت سر پر نہ پہنچ جائے توبہ نہیں کرنی۔ سیاستدان اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں سویلین بالادستی قائم ہو تو اپنے اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

کچھ لے اور کچھ دے کی پالیسی اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی ماضی کی غلطیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہاتھ ملانا ہوگا۔ ورنہ اسی طرح غیر جمہوری قوتوں کے پیادے بنے رہیں گے اور باری باری مار بھی کھاتے رہیں گے۔ میں آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کا ایک واقعہ سناتا ہوں کہ کس طرح سیاست میں آپ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی بات چیت کی جاتی ہے۔ حالانکہ بھٹو کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ بہت مغرور تھا اور سیاسی مخالفین سے انتقام لینے پر یقین رکھتا تھا۔

جب پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کی تحریک بھٹو کے خلاف اپنے عروج پر تھی اور 1977 کے عام انتخابات کا اعلان ہوگیا تو پی این اے نے الیکشن کمیشن سے اس 9 جماعتی اتحاد کے لیے ’ہل‘ کا انتخابی نشان مانگا۔ لیکن الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے یہ انتخابی نشان الاٹ کرنے سے انکار کردیا، یہ کہہ کر کہ پی این اے کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک تحریک ہے۔ اس لیے قانون کے تحت آپ کا حق نہیں بنتا کیونکہ یہ نشان صرف سیاسی جماعتوں کو الاٹ کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشن سجاد اللہ جان کے پاس اپیل دائر کی۔ چیف الیکشن کمیشن نے بھی اپیل رد کردی لیکن اپنے فیصلے میں لکھا کہ قانونی طور پر ان کا حق نہیں بنتا لیکن میں ملک میں دو جماعتی نظام کو مظبوط کرنے لیے حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ special dispensation دے کر قانون میں ترمیم کرکے ان کواجازت دے دیں۔ بھٹو صاحب نے اس فیصلے کی روشنی میں ایک آرڈیننس کے زریعے اپنے سیاسی مخالفین کے 9 جماعتی اتحاد کو ان کا پسندیدہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کی منظوری دی۔

وہ چاہتے تو انکار کرسکتے تھے کیونکہ اس وقت اسمبلیاں ٹوٹی ہوئی تھی تو انکے مخالف تمام 9 پارٹیاں علیحدہ علیحدہ الیکشن لڑتے ایک اتحاد کے طور پر نہیں۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے مخالفین کو سیاسی طور پر ہینڈل کیا۔ افسوس اس کے باوجود بھی معاملات نہ سنبھلے اور معاملہ ضیا الحق کے مارشل لا پر ختم ہوا۔

کیا اب بھی ویسا سیاسی تدبر ہے کہ سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرکے ان کے سیاسی مطالبات و حقوق مانیں؟ اگر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تویہ سب باری باری مار بھی کھاتے رہیں گے، جیلیں بھی بھگتتے رہیں گے اور ملک جہاں 70 سال پہلے کھڑا تھا وہیں کھڑا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp