تاریخ میں تحریر فیصلے

بدھ 9 اگست 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وقت فیصلہ کرتا ہے، باغی کون ہے؟ ساتھی کون ہے؟ ریفارمر کون ہے اور رہنما کون؟ وقت کے فیصلے تاریخ میں تحریر ہوتے ہیں، آنے والی نسلوں کی جاگیر ہوتے ہیں۔

عمران خان نے گزشتہ 25 برس اپنے آپ کو اس ملک کا سب سے بڑا ریفارمر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس قوم کو اس سچ تک رسائی 25 برس کے بعد حاصل ہوئی کہ جو زمانہ بدلنا چاہتا ہے وہ توشہ خانہ کیس کی صورت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے، جو کرپشن کے خلاف جدوجہد کا نعرہ لگاتا تھا وہ خود مالی  بدعنوانیوں میں ملوث ہے، جو اقربا پروری کو معاشرے کی لعنت قرار دیتا تھا اس کی گھر والی نے فرح گوگی کے تعاون سے پنجاب میں  قیامت بپا کی ہوئی تھی، اور جو برطانیہ کے نظام عدل کی مثالیں دیتا تھا جب وقت پڑا تو وہ اپنی پارسائی کا ایک بھی ثبوت نہ پیش کر سکا۔

عمران خان کا طلسم ٹوٹ گیا۔ اس جادو کے بکھرنے میں دو دہائیاں تو لگیں لیکن بات کھل کر سامنے آ گئی۔  وہ سحر جو خواتین کے دلوں پر اور نوجوانوں کے ذہنوں پر سر چڑھ کر بولتا تھا اس کا پردہ چاک ہو گیا۔ توشہ خانہ کرپشن کیس میں جیل میں مقید یہ شخص وہ نہیں ہے جس کا دھوکہ دے کر یہاں 2018 میں نظام سلطنت ہی بدل دیا گیا تھا۔ جس کی خاطر قانون، آئین اور ادارے کی ساکھ کی قربانی دی گئی تھی۔

آج ہرطرف ہاہا کار مچی ہے کہ 9 مئی کو ایک ایسا سانحہ ہوا جو آج تک چشم فلک نے نہیں دیکھا۔ ایسا گناہ تاریخ کے کسی ورق پر تحریر نہیں۔ ایسا ظلم پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایسا انتشار پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ دور موجود کی تاریخ ہے، حال کا قصہ ہے۔ لیکن ہر سانحے کے پیچھے کچھ سانحے روپوش ہوتے ہیں۔ نو مئی کی تادیب کرتے ہوئے اگر آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ یہ سانحہ جو نو مئی کو ہوا، اس کی بنیاد 2018 میں رکھی گئی تھی تو آپ خود کو دھوکے میں رکھیں گے۔

اگر 25 جولائی 2018 کو وہ سب کچھ نہ ہوتا تو یقین مانیے نو مئی بھی رونما نہیں ہوتا۔ اگر 2018 میں ووٹ کو لوٹا نہ جاتا تو نو مئی کو شہدا کی یادگاریں بھی نذر آتش نہ ہوتیں۔ اگر 2018 کے الیکشن میں عوامی مینڈیٹ کا تمسخر نہ اڑایا جاتا تو نو مئی کو سارے  ملک میں قانون سے کھلواڑ نہ کیا جاتا۔ اگر 2018 کے انتخابات میں عوام کی منشا کے آگے سر تسلیم خم کر لیا جاتا تو نو مئی کو بغاوت جیسی صورت حال نہ پیدا ہوتی۔ اگر گزشتہ انتخابات میں ووٹ کی عزت کی جاتی تو ادارے کی نو مئی کو بے حرمتی نہ ہوتی۔

تاریخ کے پہیے نے ایک دائرے میں اپنا سفر مکمل کیا۔ جس کو امانت دار قرار دینے پر سب بضد تھے وہ سب سے بڑا مجرم نکلا اور جس کو مجرم قرار دینے پر سب متعین تھے وہ پاکباز بھی نکلا اور سرخرو بھی رہا۔ جن کے نام توہین سے لیے جاتے تھے وہ اب قابل عزت ٹھرے اور جس کی صداقت کا ڈھول پیٹا گیا وہ سارے زمانے کا جھوٹا ثابت ہوا۔

یقین مانیے! عمران خان کے پاس بہت موقع تھا کہ وہ اس ملک کے لیے کچھ کرتے۔ ان کے پاس تمام تر اختیارات تھے، تمام ادارے ان سے کارکردگی کے خواہاں تھے۔ میڈیا پر مثبت رپورٹنگ کا چلن تھا ۔ کسی کی جرات نہ تھی کہ تنقید کا ایک حرف بھی زبان سے ادا ہو، عدالتیں مطیع تھیں، ادارے شکر گزار تھے، غنیم سارے پس زنداں تھے، سوشل میڈیا پر گرفت مضبوط تھی۔ الیکٹرانک میڈیا مجبور تھا۔ ایسا موقع اور محل تو کبھی کسی ڈکٹیٹر کو بھی میسر نہیں ہوا۔ اتنی رعایت تو اس نطام میں آمروں کو بھی  نہیں ملی لیکن خان صاحب نے اس موقع کو نفرت کی ترویج میں برباد کیا۔ انتقام کی تقلید میں ضائع کیا۔ اختلاف کو اپنا شعار بنایا۔ گالم گلوچ کو ہر سطح پر مروج کیا۔ اپنے احباب کی غلطیوں سے پردہ پوشی کی۔ عثمان بزدار کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ توشہ خانہ میں ہاتھ مارے۔ نااہلوں کی فوج اپنے گرد جمع کی، یوں بے شمار لوگوں کے خواب مسمار کیے۔

اگر عمران خان اپنی کوئی کارکردگی دکھاتے تو اس ملک پر تاحیات حکمرانی کر سکتے تھے۔ اگر ان منشور عوام کی فلاح ہوتا تو وہ بہت کچھ کر سکتے تھے مگر انہوں نے یہ وقت صرف انتقامی کاروائیوں میں برباد کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب آپ ہر وقت نفرت پھیلانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ خود اس نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہٹلر سے لیکر عمران خان کی ایک ہی کہانی ہے۔ اس داستان میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ کرداروں کے نام بدلتے رہے مگر تاریخ نے کہانی ایک ہی لکھی ہے۔ جو خود کو اہم سمجھتے ہیں تاریخ ان کا یہ وہم رفع کر کے ہی رہتی ہے۔

جیل میں عمران خان کو 3 برس سے زیادہ  گزارنے ہیں۔ عمران خان کے پاس سوچنے کا بہت وقت ہے۔ اب انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ بساط جو ان کے لیے بچھائی گئی تھی اس بساط پر پٹنے والا مہرہ  وہ کیسے بن گئے؟ وہ جن کی دشمنی میں انہوں نے عمر گزار دی تھی، وہ پھر نظام کا حصہ کیسے بن گئے؟ ان کے سوشل میڈیا کے جغادری کدھر گئے؟ نو مئی کے بعد ان کے بیانیے کی وقعت کیوں نہ رہی؟ کرسی اقتدار کے بجائے زنداں کی دیواریں ان کا مقدر کیوں بن گئیں؟

فرصت کے ان تین سالوں میں عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ جن کے برتے پر وہ لوگوں کو دھمکاتے پھرتے تھے جب وہی بیساکھیاں ان سے الگ ہوئیں تو ان کا کیا حال ہوا۔ جن کی تعریفیں کرتے وہ تھکتے نہ تھے جب وہی ان کے خلاف ہوئے تو کیا انجام ہوا۔ اور پھر جب اپنے ہی محسنوں کے خلاف خان نے مہم چلائی تو خان کا مقدر کیا سے کیا ہوا؟ تعظیم سے تضحیک کا یہ سفر اتنی سرعت سے کیسے کٹا؟ توقیر سے تذلیل کا فیصلہ کون سی وجوہات کی بنا پر ہوا؟

عمران خان کو جیل میں ان باتوں پر سوچنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ  وقت فیصلہ کرتا ہے، باغی کون ہے ؟ مصلح کون ہے؟ ریفارمر کون ہے اور رہنما کون؟ وقت کے فیصلے تاریخ میں تحریر ہوتے ہیں، آنے والی نسلوں کی جاگیر ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp