صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے بھیجی گئی سمری پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے۔
صدر مملکت نے قومی اسمبلی کی تحلیل وزیراعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 58 ایک کے تحت کی۔
اس سے قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری دستخط کے بعد صدر عارف علوی کو ارسال کی تھی۔
قانون کے مطابق اگر وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے بھیجی گئی سمری پر صدر کی جانب سے دستخط نہ کیے جائیں تو اسمبلی از خود 48 گھنٹوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آج رات کو اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت کو بھجوا دیں گے۔
آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات آئینی تقاضا ہے، مگر حکمرانوں کی جانب سے جاتے جاتے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ شاید 2023 الیکشن کا سال نہ ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے دو روز قبل نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام انتخابات فروری یا مارچ تک جا سکتے ہیں، وفاقی وزیر کی جانب سے اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ چونکہ مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے اور اب نئی حلقہ بندیاں ہونا آئین کا تقاضا ہے جس کے لیے 120 دن کا وقت درکار ہے۔
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام انتخابات میں ایک سے دو ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے مگرالیکشن اس سے آگے نہیں جائیں گے۔
وزیر پاور ڈویژن خرم دستگیر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کر دیے اب انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، اور ہم 90 روز کے اندر بھی انتخابات میں جانے کے لیے تیار ہیں۔