متھرا تحصیل میں جے یو آئی کے منتخب نمائندے کے انتقال کے بعد ضمنی الیکشن ہوا جو پی ٹی آئی نے ایک بڑی لیڈ سے جیت لیا۔ ٹرن آؤٹ خآصا کم رہا لیکن پی ٹی ائی کی لیڈ زیادہ رہی۔ گورنر حاجی غلام علی ڈسٹرکٹ ناظم بھی رہے ہیں۔ اب بھی پشاور کا ڈسٹرکٹ ناظم ان کا بیٹا ہے۔ یہ سیٹ جیتنا جے یو آئی اور حاجی غلام علی کے لیے عزت بے عزتی کا مسئلہ تھا۔
پی ٹی ائی اب تک کسی سیاسی تنظیم کی بجائے ایک فین کلب کی طرح بی ہیو کرتی آئی ہے۔ پی ٹی ائی کارکن مختلف دھڑوں میں تقسیم رہتے ہیں اور آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ ضمنی االیکشن سے پہلے پی ٹی ائی کے تمام دھڑوں نے آپس میں صلح کر لی تھی۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ جو بھی امیدوار ہو گا اس کی حمایت کی جائے گی۔
حکومت کی سختی، مقدمات اور عوام سے رابطہ کرنے سے قاصر رہنے کا علاج ٹیکنالوجی کے استعمال میں ڈھونڈا گیا ۔ پی ٹی آئی ڈیٹا کا بھرپور استعمال کیا ۔ ایسے تمام لوگوں تک رسائی حاصل کی گئی جنہوں نے پی ٹی ائی حکومت میں کسی بھی اسکیم سے فائدہ حاصل کیا تھا ۔ صحت کارڈ کا ڈیٹا نکال کر ان سب لوگوں سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے علاج کی سہولیات حاصل کی تھیں۔ ایک دن پہلے کپتان کی گرفتاری سے ہمدردی کے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لیے بھی براہ راست ووٹر کو میسج کیے گئے۔
الیکشن نتائج یہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی ائی نے ایک بڑی لیڈ تو حاصل کی ہے اس کو 35 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ پی ڈی ایم جماعتوں کو ملنے والے ووٹ 60 فیصد سے زیادہ ہیں۔ مشترکہ امیدواور اور ون ٹو ون مقابلہ پی ٹی ائی کی جیت کو مشکل کر سکتا ہے۔
مریم نواز نے بھی اب خیبر پختونخوا میں سوشل میڈیا اور یوتھ کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔
مریم نواز نے ایک 6رکنی کمیٹی بنائی ہے۔ اس میں بلاول اظہر کیانی، سابق ایم پی اے اختیار ولی، سابق ایم این ااے بابر نواز، عالمگیر شاہ، اور بلاول آفریدی شامل ہیں۔ اس کمیٹی میں 3 نوجوان سابق پاریلیمینٹیرین ( اختیار ولی، بابر نواز، بلاول آفریدی) کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کا تعلق نوشہرہ، ہری پور اور خیبر ضلع سے ہے۔
اس کمیٹی کے ذمے سوشل اور ڈیجیٹل کمپین چلا کر رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔ مریم نواز خیبر پختونخوا میں رابطہ عوام مہم چلائیں گی اور یہ کمیٹی اس کے لیے ماحول تیار کرے گی۔
پی ٹی آئی ضمنی الیکشن کے لیے ڈیٹا کا ٹارگٹڈ استعمال کیا ہے۔ اس کے لیے پروفیشنل کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ۔ مریم نواز یہی اسٹریٹجی اپنا رہی ہیں ۔ لیکن مسلم لیگ نون ڈیٹا اور ڈیجیٹل کمپین میں پی ٹی ائی سے بہت پیچھے ہے۔
عمران خان کی موجودہ سزا شائد جلد معطل ہو جائے۔ انہیں ضمانت پر اس کیس میں رہائی بھی مل سکتی ہے لیکن ان کا الیکشن مہم حصہ لینا یقینی نہیں ہے۔ کسی نئے یا پرانے کیس میں اگر کپتان کی نااہلی برقرار رہتی ہے تو الیکشن مہم بھی وہ نہیں چلا سکیں گے۔ پی ٹی ائی کا الیکشن لڑنے اور جیتنے کے لیے انحصار کپتان کی مقبولیت اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر ہی ہو گا۔
مسلم لیگ نون سہ جہتی حکمت عملی استعمال کرے گا ۔ 90، 97 اور 2002 کی 3 مختلف اسٹریٹجی پی ٹی آئی کے خلاف اکٹھے استعمال کی جائیں گی۔
ون ٹو ون الیکشن کی ٹرم پہلی بار 1990 میں ہونے والے الیکشن میں سامنے آئی تھی۔ تب پی پی کے خلاف آئی جی آئی اور اتحآدی جماعتوں نے مل کر الیکشن لڑا تھا۔ بظاہر سب نے الیکشن اپنے اپنے نشان پر لڑا تھا۔ الیکشن نتائج سامنے آئے تو ہر جگہ ون ٹو ون مقابلے ہوئے تھے۔ بہت طریقے سے ایسے پلاننگ کی گئی تھی کہ پی پی کے مدمقابل ایک ہی امیدوار سامنے آیا تھا، جب کہ کاغذوں میں ہر پارٹی کا امیدوار میدان میں موجود دکھائی دیتا تھا۔
سنہ 1997 میں پی پی کا ووٹر اتنا مایوس ہو چکا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے ہی نہیں نکلا۔ پی پی کی پارلیمانی قوت سمٹ کر 17 سیٹ تک رہ گئی تھی۔ جبکہ سنہ 2002 میں پی ایم ایل این کا ووٹ انٹیکٹ تھا لیکن اس کے پاس الیکٹ ایبل نہیں تھے۔ مسلم لیگ نون صرف 18 سیٹ ہی جیت سکی تھی۔
پی ٹی ائی کے خلاف یہ سارے ماڈل اب اکٹھے استعمال کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کا مقابلہ ون ٹو ون کیا جائے گا۔ اس کا ووٹر اتنا کنفیوز اور مایوس کر دیا جائے گا کہ وہ ووٹ دینے ہی نہ نکلے۔ پی ٹی آئی کے پاس کوئی الیکٹ ایبل ہی نہیں بچے گا جو الیکشن ڈے مکینزم پر عمل تو چھوڑیں سنبھالنے کے بھی قابل ہو۔ ایک سائڈ پر تجربہ اور سپورٹ ہے۔ دوسری جانب مقبولیت اور ٹیکنالوجی۔ الیکشن مقابلے ضرور دیکھنے والے ہوں گے۔ جو سائیڈ بھی اپنی حکمت عملی پر اچھا عمل کر گئی میدان اسی کا رہے گا۔