سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق قانون کالعدم قرار دیدیا

جمعہ 11 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دیدیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس کےاختیارات سے متعلق سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ متفقہ طور پر سنایا ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ بینچ میں شامل دیگر ججز میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو آئین سے متصادم قراردیا اور کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 کیا ہے؟

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز بل 2023  قومی اسمبلی سے14 اپریل اور سینیٹ سے 5 مئی کو منظور ہوا تھا۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔

اس نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت کیے گئے فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی اور فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ اپیل کی سماعت کرے گا۔

اس سے پہلے چیف جسٹس کے کسی بھی ازخود فیصلے پر اپیل کا حق نہیں تھا مگر اب اس بل کی منظوری کے بعد یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے۔

نااہلی کے حوالے سے یہ ترمیم محسن داوڑ کی جانب سے پیش کی گئی تھی جو بل میں شامل کرلی گئی جس سے نواز شریف کے علاوہ یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور از خود نوٹس کیسز کے فیصلوں کے دیگر متاثرین بھی مستفید ہوسکیں گے۔ ایسے افراد کو اب 60 روز میں ون ٹائم اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں سپریم کورٹ کے اوریجنل جورسڈکشن میں موجود تمام فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دے دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نظرثانی کی درخواست سننے والا بینچ بنیادی کیس سننے والے بینچ سے بڑا ہوگا۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد حسین مگسی نے 29 مئی کو یہ بل پیش کیا تھا۔ اس موقع پر محسن داوڑ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کراچی کا نسلہ ٹاور بھی ازخود نوٹس کی وجہ سے گرایا گیا اور ماضی میں 184/3 (ازخود نوٹس) کے متاثرین کو 30 دن میں اپیل کا حق دیا جانا چاہیے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ یہ ایک بار کی قانون سازی ہے اور اس سے کوئی پنڈورا باکس نہیں کھلے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp