شنگھائی میں اسٹریٹ کرائم نہ ہونے کی وجوہات

اتوار 13 اگست 2023
author image

امتیاز بانڈے

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اکتوبر2017  میں اتفاقاً  پولیس افسران کے ایک وفد کے ساتھ چین کے انتہائی خوبصورت، صاف ستھرے اور منظم شہر شنگھائی جانے کا موقع ملا۔ اس شہر کا یورپ کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور خصوصاً کراچی کے اسٹریٹ کرائم سے عاجز آئے ہوئے شہریوں کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ شنگھائی شہر میں اسٹریٹ کرائم کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی چند اہم وجوہات ہیں۔ جن کے لئے شنگھائی پولیس نے کچھ انتہائی سنجیدہ اور اہم اقدامات اور قانون سازی کر رکھی ہے۔

  سب سے بہتر قانون یہ بنایا گیا یہ وہاں ماسوائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کسی بھی شہری کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی شہری کو اسلحہ کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ عام شہری ہو یا خاص۔ سرکاری افسران و ملازمین سرکاری اسلحہ صرف دوران ڈیوٹی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور ڈیوٹی سے واپس جاتے وقت وہ اسلحہ متعلقہ تھانے میں جمع کروا کر جانا لازمی ہے۔

اسی طرح چھری چاقو بھی کسی شخص کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ چار انچ سے زیادہ کے چاقو کی خریداری پر، خریدنے والے کو اپنی شناخت دکاندار کے پاس ظاہر کرنا پڑتی  ہے اور جس کی وجہ سے کوئی شہری  اسٹریٹ کرائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس شہر کی دوسری اور سب سے اہم خصوصیت  اور شہر میں اسٹریٹ کرائم اور چھینا جھپٹی نہ ہونے کی سب سے اہم وجہ اس شہرمیں سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک جال بچھا ہوا ہونا ہے۔ گو کہ شنگھائی شہر کی کل آبادی 2022 تک 24.76 ملین یعینی لگ بھگ (2 کروڑ 45 لاکھ)  یعنی کراچی کی آبادی (1 کروڑ 72 لاکھ) سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ جب کہ شنگھائی شہر کا کل رقبہ 6340 مربع کلو میٹر اور کراچی کا 3780 مربع کلو میٹرہے، یعنی کراچی سے تقریبا 2560 کلو میٹر زیادہے۔

 

ہمیں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ صرف شنگھائی شہر میں ساڑھے5 لاکھ سی سی ٹی وی کیمرے شاہراہوں، گلیوں، مارکیٹوں اور دکانوں پر لگائے گئے ہیں۔ جن میں سے 2 لاکھ کیمرے شنگھائی پولیس کے اور ڈھائی لاکھ کیمرے کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے عوام نے لگائے ہیں۔ ان تمام کیمروں کو ایک بہت بڑے اور وسیع ہال میں بنے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سے منسلک کیا گیا ہے جہاں سے پورے شنگھائی شہرکی  چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔

یہ کیمرے عموما 15 سے 30 میگا پکسلز کے ہیں جو بارش، شدید سردی اور طوفان وغیرہ میں بھی ٹھیک طرح کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب ہم خود فیصلہ کریں کہ کراچی جیسے میگا سٹی میں جہاں اسٹریٹ کرائم ایک عفریت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اس میں فی الوقت کتنے سی سی ٹی وی کیمرے کام کر رہے ہیں اور جو ہیں ان کی کوالٹی اور کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔

جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی کے لئے کسی بھی ملک اور شہر کے تمام شہریوں کی رجسٹریشن ہونا سب سے ضروری عمل ہے۔ اور  چونکہ چین میں ہر ایک شہری کا ریکارڈ بمع اس کی تصویر کے سینٹرل ڈیٹا بیس میں محفوظ ہے۔ اس لیے ملک کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے شہری کا ریکارڈ کسی بھی شہر میں بیٹھ کر چیک کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کی طرح نہیں کہ جہاں غیر ملکی یعنی بنگالی، برمی، افغانی جن کا نادرا کے پاس سرے سے کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے، لیکن وہ دھڑلے سے ہر قسم کا کاروبار بھی کرتے ہیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں آزادی سے گھومتے ہیں۔ نہ صرف آزاد ی سے گھومتے ہیں بلکہ جب دل چاہے انتظامیہ کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور شاہراہیں بھی بند کر دیتے ہیں۔

 شنگھائی پولیس نے ایک جدید سافٹ وئیر متعارف کروایا ہے۔ اس سافٹ وئیر( (Faccial Recogniztion System)چہر ہ شناسی کا نام دیا گیا ہے۔ اس سافٹ وئیر کے ذریعہ شنگھائی شہر میں کسی بھی شہری کو، جس کا ریکارڈ شنگھائی کے ڈیٹا بیس میں موجود ہے، شہر میں کسی بھی جگہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ کچھ اس طرح استعمال ہوتاہے کہ کسی بھی عام شہری یا کسی مشکوک یا ملزم کو شہر میں تلاش کرنے کے لئے اس کی ڈیٹا بیس میں موجود تصاویر کو کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے کیمروں سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

جس شخص کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو تو ایک ڈیٹا بیس سے منسلک کیمروں کو ایک مخصوص کمانڈ دی جاتی ہے جس سے یہ کیمرے اس تصویر والے شخص کو شہر میں تلاش کرتے ہیں اور شہر میں جس جگہ بھی یہ شخص کسی کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے کیمرے کے سامنے آجائے وہ کیمرہ اسے فوکس کر لیتا ہے اور کمانڈ سینٹر کو ایک میسیج ریسیو ہو جاتا ہے۔ جس پر اس جگہ کے قریبی پولیس افسران کو اس کی اطلاع کر دی جاتی ہے جو اس شخص تک پہنچ کر اسے حراست میں لے لیتے ہیں۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی مدد سے کسی بھی جرائم پیشہ شخص کے لئے شنگھائی شہر میں جرم کرنا بے حد مشکل امر ہے اور اگر وہ جرم کر بھی لے تو پھر اس شخص کے لئے شنگھائی شہر میں کھلے عام سڑکوں پر گھومنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ ہمیں وہاں کی پولیس نے بریفینگ کے دوران بتایا کہ ان کا محکمہ ان دنوں کسی بھی کیمرے میں نظرآنے والے شخص کو اس کی چال کے ذریعے شناخت کرنے کے ایک سافٹ وئیر پر کام کر رہا ہے تاکہ اگر کسی کیمرے میں اس کی شکل واضح نہ ہو تو اس کی چال سے اسے شناخت کر لیا جائے۔ اورمجھے یقین ہے وہ ایسا کر بھی لیں گے کیونکہ وہ شنگھائی کو ایک پرامن اور جرائم سے پاک شہر بنانے  اور اپنی عوام کے تحفظ کے لئے بہت سنجیدہ ہے۔

شنگھائی پولیس کی ترقی اور کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا راز ان کی اپنی وردی اور اپنے ملک سے وفاداری اور سیاست سے پاک ہونا ہے۔ سرکاری فنڈز کا استعمال اسی جگہ پر کیا جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری فنڈز اور سرکاری پراپرٹی کو کوئی بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا۔ ہم نے شنگھائی پولیس کے چیف کوجس کا عہدہ پاکستانی رینک کے مطابق ڈی آئی جی کے برابر ہوتا ہے،  از خود اپنی کار ڈرائیو کر کے، بنا کسی اسکارٹ یا مسلح گارڈز کے اپنے دفتر جاتے دیکھا ہے۔

اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ انہوں نے جرائم کی روک تھام اور بیخ کنی کے لئے جو سسٹم بنایا ہے اس پر اعتماد ہے۔ اور وہ بلا خوف و خطر اکیلے سفر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں گارڈز کی فوج اور اسکارٹ اپنے ساتھ لے کر چلنے والے افسران کو خود اس سسٹم پر اعتماد نہیں ہے اس لئے وہ اپنی حفاظت کے لئے ان سیکیورٹی گارڈز کے محتاج ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ یا ان کی فیملی اکیلے باہر گئے تو کہیں نہ کہیں لوٹ لئے جائیں گے۔

جو کچھ شنگھائی میں دیکھا وہ کچھ ایسا ناممکن نہیں ہے  بس اس کے لئے حکومت وقت کا سنجیدہ ہونا، اسمبلیوں میں عوام کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنا اور سرکار فنڈز کے اجراء کے بعد اس کے جائز استعمال کی سختی سے مانیٹرنگ کرنا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے پچھلے چند دنوں میں حکومت کے جاتے جاتے برق رفتاری  سے مختلف بلز منظور کروائے لیکن اگر ان کا تفصیلی مطالعی کیا جائے تو کوئی بھی ایسا بل نہیں ہوگا جس میں جرائم کی بیخ کنی، اور عوام کے تحفط کے لئے کوئی بل پیش یا منظور کروایا گیا ہو۔ چین میں کرپشن کے خلاف Zero tolerance کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے چاہے وہ کسی سرکاری افسر نے کی ہویا کسی سیاستدان نے۔

وہاں کسی بھی جرائم پیشہ شخص کو چھوڑنے کے لئے کسی ایس ایچ او کو کسی اعلی افسر یا وزیر مشیر کا فون نہیں آتا۔ وہاں سرکاری زمین پر افسران اپنے ذاتی مکان نہیں تعمیر کر سکتے۔ وہاں جب ٹھیکیدار کوسرکاری کا م کا ٹھیکہ دینے سے پہلے اپنا کمیشن طے نہیں کیا جاتا۔ اور ٹھیکہ دئیے جانے کے بعد اگر وہ کام مقررہ وقت میں پورا نہ کیا جائے تو نہ صرف اس کے خلاف

کاروائی کی جاتی ہے بلکہ اسے ہمیشہ کے لئے سرکاری ٹھیکے دینے کے لئے بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔

ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ کر، مسلمان ہونے کا دعوی کر کے ان کافروں جیسا کام نہیں کر پاتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امتیاز بانڈے سابق پولیس افسر ہیں۔ وہ جب اپنے تجربے کی روشنی میں مختلف سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں تو یہ محض تجزیہ نہیں بلکہ ایک ماہر فن کی قیمتی رائے ہوتی ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp