نازیہ حسن کے پرستاروں کا پھیلاؤ دنیا بھر میں ہو رہا تھا۔ ہر کوئی کم سِن اور سُریلی گلوکارہ کی آواز کا مداح بن کر رہ گیا تھا، لیکن صرف نازیہ ہی نہیں زوہیب حسن اور ان کے گھر والوں کا دل اداس تھا۔
فلم ’قربانی‘ کے گیت ’ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ نے نازیہ حسن کو ایسی شہرت و مقبولیت دی تھی جس کی خواہش لیے ہر گلوکار اس شعبے میں قدم رکھتا ہے، مگر اس کامیابی کے باوجود نازیہ حسن کو خوشی نہیں تھی۔ وہ کسی کو منانا چاہتی تھیں لیکن یہ کام نہیں ہو رہا تھا۔
نازیہ حسن صرف 15 برس کی تھیں، لندن کے گھر میں زینت امان کا آنا جانا تھا جن کے سامنے ہی نازیہ حسن اور زوہیب حسن کئی بار گلوکاری کا اظہار کر چکے تھے۔ پاکستا ن آتے تو یہاں سہیل رعنا کے پروگرام ’سنگ سنگ چلے‘ میں دیگر بچوں کے ساتھ کورس کی صورت میں شامل ہوتے۔ سہیل رعنا تک رسائی فاطمہ ثریا بجیا کے توسط سے ہوئی جو نازیہ اور زوہیب کی والدہ منیزہ بصیر کی سہیلی تھیں اور سماجی اور ثقافتی محفلوں کا معتبر نام تصور کیا جاتا تھا۔
نازیہ حسن کی جب فلم ’قربانی‘ کے ہدایتکار فیروز خان تک رسائی ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے اوپر سے نیچے کم سن نازیہ حسن کو دیکھا جو اُس وقت تک عمر کی صرف 15 بہاریں ہی دیکھ سکی تھی۔ ان کے چہرے پر اور ذہن میں یہی سوال تھا کہ کیا یہ بچی زینت امان کے لیے پس پردہ گلوکاری کرے گی؟
فیروز خان کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے زینت امان نے صرف یہی فرمائش کی کہ ایک بار فیروز خان اور ونود کھنہ، نازیہ حسن کی آواز ضرور سنیں جو فلم میں اُن پر فٹ بیٹھے گی۔
نازیہ حسن نے جب گلوکاری کا مظاہرہ کیا تو فیروز خان تو دنگ رہ گئے جنہوں نے اعتراف کیا کہ زینت امان درست کہہ رہی تھیں۔ نازیہ حسن کی آواز تو واقعی ایسی ہے جسے سُن کر لگتا ہے جیسے جلترنگ بج اٹھا ہو۔
پھر وہ ہوا جس کا تصور ممکن ہے نہ تو نازیہ حسن نے کیا تھا اور نہ ہی فیروز خان نے۔ نازیہ کا گایا ہوا گیت ’آپ جیسا کوئی میرا زندگی میں آئے‘ نے مقبولیت کے تمام تر ریکارڈز پاش پاش کر ڈالے۔
نازیہ حسن برصغیر میں پاپ میوزک کی بنیاد رکھنے والی گلوکارہ بن گئیں جنہوں نے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ مدھر اور رسیلے تھرکتے ہوئے گیتوں کی بہار پیش کر دی۔
نازیہ حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز تو یہ تھا کہ 1982 میں ’قربانی‘ کی نمائش کے بعد اگلے سال فلم فیئرایوارڈز کا میلہ سجا تو وہ پہلی پاکستانی گلوکارہ بن گئیں جنہیں بہترین گلوکارہ کا ایوارڈ ملا۔ ساتھ ہی وہ کم سن ہونے پر یہ اعزاز حاصل کرنے والی گلوکارہ کا ریکارڈ بھی ان کے پاس آگیا۔ ان کا ہر البم کامیابی کی سرحدوں کو پار کرتا جارہا تھا۔
بہرحال اس قدر مقبولیت اور شہرت کے باوجود نازیہ کا دل غمگین تھا۔ شہرت نے انہیں ایک پیار کرنے والی شخصیت سے دور کردیا تھا بلکہ وہ ہستی تو جیسے اُن سے روٹھ گئی تھیں۔
جان سے پیاری دادی کے روٹھنے پر جیسے نازیہ حسن کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ بصیر حسن کی والدہ اور نازیہ اور زوہیب حسن کی دادی اس بات پر خفا تھیں کہ ان کی پوتی کیوں گلوکاری کررہی ہے؟ کیوں انہوں نے خاندانی وقار اور اقدار کے خلاف جا کر گلوکاری کا انتخاب کیا۔
عالم یہ ہوگیا کہ کامیابی اور کامرانی کی شاہراہ پر رواں دواں نازیہ حسن سے دادی محترمہ اس قدر ناراض ہوگئیں کہ انہوں نے نازیہ اور زوہیب سے بول چال ہی بند کردی۔
کوئی ڈیڑہ سال کا عرصہ وہ تھا جب نازیہ اورزوہیب کی دادی نے مکمل طور پر یہ طرز عمل اختیار کیا۔ دادی کو یہ شکوہ تھا کہ خاندانی روایات کے برخلاف جہاں نازیہ اور زوہیب حسن نے گلوکاری کا چناؤ کیا ہے اس سے ان کی تعلیم کا حرج ہوگا۔
اور پھر ایک موڑ وہ بھی آیا جب دادی کو سمجھایا گیا کہ نازیہ اور زوہیب گلوکاری کرتے ہوئے خاندانی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایک حد میں رہتے ہوئے اپنے شوق کو جاری رکھیں گے۔
دادی کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ اس فن کی وجہ سے زوہیب حسن اور نازیہ کی پڑھائی متاثر نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں دونوں کی والدہ منیزہ بصیر نے واقعی اہم کردار ادا کیا، جو گلوکاری کے اس شوق کے دوران بیٹا اور بیٹی کی تعلیمی سلسلے کو باقاعدگی سے جاری رکھنے میں نمایا ں رہیں۔
ان تمام تر یقین دہانیوں اور وعدوں کے بعد ہی دادی مان گئیں۔ یوں نازیہ حسن کے چہرے کی رونق لوٹ آئی۔