رواں مالی سال 5 جون کو سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران بتایا تھا کہ 1300 سی سی سے زیادہ پاور والی وہ گاڑیاں جو ایشیا میں تیار کی گئیں ہوں اُن پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد ختم کی جارہی ہے۔
سابق وزیر خزانہ کی اس تقریر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن ایم شہزاد نے کہا ہے کہ گاڑی کی مالیت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی گاڑی کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے، جو گاڑی کی رجسٹریشن پر لگائی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2500 سی سی تک کی گاڑیوں پر 6 فی صد ، 2500 سے 3000 ہزار سی سی کی گاڑیوں پر 8 فی صد جب کہ 3000 سی سی کی گاڑی پر 10 فی صد ایکسائز ڈیوٹی ہے۔
بجٹ میں کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا: ایم شہزاد
انہوں نے مزید بتایا کہ بجٹ میں محض ریگولیٹری ڈیوٹی( آر ڈی) ہٹا دی گئی ہے۔ باقی ڈیوٹیز اور ٹیکسز برقرار ہیں۔ جس سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، ڈیوٹیز ڈالرز میں بڑھتی جا رہی ہیں اور گاڑی لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔
سوزوکی کمپنی کے ایک عہدیدار کے مطابق اب 1300 سی سی سے اوپر والی گاڑی پر ایکسائز ڈیوٹی کو مقررہ نرخوں سے عام نظام میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اب فکسڈ ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح کے بجائے ڈیوٹی اور ٹیکس کے حساب کتاب کے لیے کاروں کی انوائس ویلیو استعمال کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل یہ طریقہ کار صرف 1800 سی سی سے زیادہ پاور والی گاڑیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فی الحال انڈسٹری کے نتائج کے حوالے سے تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم اس تبدیلی کے حقیقی اثرات کا اندازہ لگانے میں 3 سے 4 ماہ لگیں گے۔
الیکٹرک وہیکل ایسوسی ایشن کے صدر شوکت قریشی نے کہا کہ صرف ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے باقی تمام ٹیکسز پہلے کی نسبت 4 گناہ زیادہ بڑھ چکے ہیں۔تھوڑے سے مارجن کے ساتھ کمی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی فروخت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ رجسٹریشن فیس کئی گنا بڑھ چکی ہے، ڈیوٹیز میں تھوڑی بہت کمی نے ڈالر کی قیمت کو تو نہیں روکا جس سے عوامی سطح پر کوئی فائدہ ہوتا۔
گاڑیوں کی فروخت بالکل ختم ہو گئی ہے: شوکت قریشی
انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں نے تو اپنی گاڑیاں تک بند کر دی ہیں کیونکہ پیٹرول اتنا مہنگا ہو چکا ہے، گاڑیاں خریدنا تو بہت دور کی بات ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ گاڑی کا کوئی خریدار ہی نہیں ہے، ایسے حالات میں اگر کوئی 2 وقت کی روٹی بھی کھالے تو بہت بڑی بات ہے۔
پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی لائی نےختم کروا دی: شوکت قریشی
انہوں نے بتایا کہ 2030 تک یورپ سمیت انڈیا میں بھی پیٹرول یا ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں نہیں بنیں گی اور نہ ہی فروخت ہوں گی جب کہ پاکستان میں ابھی تک الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کم از کم اس وقت تک ملک میں الیکٹرک موٹر سائیکل کی دستیابی یقینی بنانی چاہیے تھی لیکن بد قسمتی سے یہاں اس حوالے سے بنائی گئی پالیسی ہی آٹو موبائل لابی نے ختم کروا دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تو ہر لحاظ سے دنیا سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں ۔ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ 2 سے 4 سال تک پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔
حکومتی فیصلوں سے آٹو موبائل انڈسٹری میں کوئی بہتری نہیں آئی: عبدل وحید
پاکستان آٹوموٹیو ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدل وحید کا کہنا ہے کہ 10 آگست تک پراڈکشن ڈیٹا آئے گا اور اس کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے فیصلوں سے آٹو موبائل انڈسٹری کو کتنا فائدہ ہوا ہے یا فائدہ ہوا ہی نہیں ہے۔
اسلام آباد میں ایک پرائیوٹ کمپنی میں 5 سال سے منیجر کے عہدے پر کام کرنے والے اسلام آباد کے شہری محمد احمد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک عرصے سے گاڑی خریدنے کی خواہش تھی جس کے لیے بجٹ کا انتظار کر رہا تھا کہ شاید گاڑیوں کی قیمتیوں میں کچھ کمی ہو مگر ایسا نہیں ہوا۔
ٹیکسز اور پیٹرول کی قیمتوں نے گاڑی خریدنے کی خواہش ہی مار دی:محمد احمد
ان کا کہنا تھا کہ اب تو پاکستان میں استعمال شدہ گاڑی لینا بھی آسان بات نہیں رہی۔ گاڑیوں کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ متوسط طبقے کی قوت خرید ہی نہیں رہی۔ ان پر عائد ٹیکسز نے گاڑیوں کی خریداری تو دور کی بات اس کی خواہش کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا اور اگر خرید بھی لی جائے تو پیٹرول کی قیمتیں اسے 4 دن بعد ہی گاڑی کھڑی کرنے پر مجبور کر دیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی حالات روز بہ روز بدتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔