76 برس کی آزادی

پیر 14 اگست 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 گجرات سے تعلق رکھنے والے   میرے  ایک  بزرگ  دوست ریٹائرڈ تحصیل دار  شفیق قریشی     ریٹائرمنٹ کے بعد  سرائے عالم گیر میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں  چونکہ دورانِ ملازمت انھوں نے مال پانی نہیں بنایا ۔ کوئی دیگر ذریعہ آمدن  بھی نہیں لہذا معمولی پنشن پر گزارہ کر رہے ہیں۔ پنجابی کے اتنے عمدہ شاعر ہیں کہ انڈیا میں گئے تو امرتا پریتم نے خصوصی طور پر اپنے گھر بلایا اور ان کی نظمیں بہت رسان سے سُنیں۔

یورپ جانے کے خواہش مند سینکڑوں پاکستانیوں کی کشتی جب جون میں اندو ہناک حادثے کا شکار ہوئی تو  اس کے چند ہفتے بعد گجرات سے قریشی صاحب کے  ایک جواں سال بھتیجے نے بتایا کہ وہ یورپ جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ  حادثے کا شکار ہونے والے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے علاقوں سے تھا۔ اور ایسے حادثے کا شکار وہاں کے نوجوان کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ  ڈویژن کے  لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ پیدل،اور سمندری رستے سے یورپ جا چکے ہیں  جسے عرفِ عام میں “ڈنکی ”  لگانا کہتے ۔ ڈنکی  لگانے کے مرحلے میں بہت سے پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ  دھو بیٹھے ہیں  اس کے باوجود ان علاقوں  کے نوجوانوں کی بہت  بڑی تعداد یورپ جانے کی خواہش مند ہے۔

یورپ جانے کے خواہش مند بھتیجے سے شفیق قریشی صاحب  نے کہا کہ “کشتی پر نہ جانا” جواباً بھتیجے نے جواب دیا کہ “ہوائی جہاز میں ہی جاؤں گا ” تو قریشی صاحب نے اُسے بے ساختہ شعری  انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا

جاگ اُٹھیں گے تیرے بھاگ

پاکستان سے زندہ بھاگ

بظاہر اس عام سی بات میں کتنا درد  چُھپا ہوا ہے ، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔اس وقت  پاکستانیوں کی اکثریت اپنے ملک سے باہر جانا چا ہتی ہے ۔ اپنی دھرتی ،اپنے ملک سے پیار اور اُنسیت انسان کے خمیر میں ہوتی ہے۔ آپ کا بچپن خواہ کتنے  چھوٹے اور کچے پکے یا  ٹوٹے پھوٹے گھر میں کیوں نہ گزرا ہو وہ عموماً تا  عمر آپ کو اچھا لگتا ہے اور آپ کو اس کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ اسی طرح آپ کے ملک کے حالات جیسے بھی ہوں آپ وہیں رہنا چاہتے ہیں ۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی خواہ کتنی اچھی حالت میں رہ  رہے ہوں وہ اپنے ملک کی بہتری سوچتے ہیں ۔ جب ملک ان کی توقعات کے مطابق بہتر نہیں ہو پاتا تو ان فرسٹریشن بڑھتی ہے اور وہ تلملاتے ہیں۔

یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے وہ روٹی روزی اور بہتر معاش اور اچھے مستقبل کے لئے  دوسری  سر زمینوں کی طرف ہجرت کرتا رہا ہے ۔ ایک وقت میں اگر مغرب کا رُخ مشرق کی طرف رہا تو آج مشرق کا رُخ مغرب کی طرف ہو گیا ہے تو اچھنبے کی بات نہیں ۔ مگر دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ تمام وسائل اور مواقع کے باجود ہمارے لوگوں کا یقین خود سے اُٹھتا جا رہا ہے۔ یہ مایوسی  ، نا  امیدی اور اپنے ملک کی انتظامیہ اور سرکار پر عدم اعتماد ہے۔

جب  ملکِ عزیز معرضِ وجود میں آیا تو لاکھوں بے گناہ عام شہریوں ،بوڑھوں، بچوں ،عورتوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ عورتوں کا اغواء کیا گیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ نئی بننے والی سرحد کے دونوں طرف دکھ اور تکلیف کی کہانیا ں  اپنا گھر بار چھوڑ کر  بے گھر ہونے وا لوں کی زبان پر تھیں۔ یہ اتنی عجیب، تکلیف دہ  اور درد ناک ۔صورتِ حال تھی کہ  آزادی کی خوشی ماند پڑ گئی اور فیض صاحب جیسا حساس شاعر کہہ اُٹھا

یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ

سحر وہ انتظار تھا جس کا وہ یہ سحر تو نہیں

بد قسمتی دیکھیے نوزائیدہ مملکت ابھی اپنے پاؤں پر بھی نہ کھڑی ہونے پائی تھی کہ بانیِ پاکستان ملک بننے کے تقریباً  ایک سال بعد  وفات پاگئے۔ان کی رحلت کے بعد ملک اللہ توکل  ہی چلتا رہا۔ نہ تو پاکستان بنانے والی پارٹی اور نہ ہی ملک میں ایک دہائی تک انتخابات ہو سکے۔ قائد ِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد معاملہ  یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ  وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ نے پہلے ایک حاضر سروس کمانڈر ان چیف ایوب خان کو  1954ء  میں اپنی کابینہ میں وزیرِ دفاع بنایا ۔ بعد ازاں ایک بیورو کریٹ صدر اسکندر مرزا نے ایوب خان کی مدد سے ملک میں مارشل لاء لگا دیا  اور ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر  مقرر کر دیا۔

حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ چند روز بعد  ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور خود صدرِ پاکستان بن بیٹھے۔ مارشل لاء کی آمد کو عمومی طور پر عوام نے خوش آمدید کہا کیوں کہ وہ  سیاسی عدم استحکام کی صورتِ حال سے اُکتا چُکے تھے،مگر وہ یہ نہیں جانتے  تھے کہ فوج نے قیادت کا خلا وقتی طور پر پورا نہیں کیا بل کہ آئندہ یہ طرزِ عمل مستقل شکل اختیار کر جائے گا۔

ایوبی دورِ حکومت کا سب سے   بڑا کارنامہ صنعتی ترقی کو کہا جاتا ہے لیکن یہ بھی  سچ ہے کہ اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء نے ملک کی ساسی حرکیات کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔ سیٹو ، سینٹو  معاہدے کے تحت امریکی کیمپ میں جانے کے بعد  امریکہ کو بڈھ بیڑ کے مقام پر  فوجی اڈے بھی فراہم کردیے۔ پوڈو اور ایبڈو قوانین کے تحت بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگائی گئی۔ سیاسی عمل اور سیاسی پارٹیوں کو ممنوع قرار دے دیا۔ ایک متنازع معاہدے کے تحت تین دریاؤں کے پانیوں پر بھارت کو اختیار دے دیا۔ پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کےتحت صحافتی آزادیوں کو سلب کر لیا گیا۔

صرف یہی نہیں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے معیاری اخبارات “پاکستان ٹائمز ” “امروز” کے ساتھ “لیل و نہار” کو حکومتی تصرف میں لے لیا۔ قائدِ اعظم کی بہن  محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا گیا ۔ ایک نو زائیدہ مملکت کو جنگ کے ہولناک تجربے سے گزارہ گیا۔اسی دور میں مناسب سیاسی عمل کی غیر موجودگی اور اقتدار میں عدم شرکت کے سبب مشرقی پاکستان کے عوام  میں بالخصوص احساسِ محرومی کو فروغ ملا۔ یہی احساس بعد ازاں لاوا ثابت ہوا۔1969ء میں عوامی احتجاج  کے نتیجے میں ایوب خان کو استعفا  دینا پڑا ۔ جاتے جاتے اقتدار ایک ڈکٹیٹر دوسرے  یحییٰ خان کے حوالے کر گیا۔

ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن تو ہوئے مگر اقتدار جیتنے والے کے حوالے نہ کیا گیا نتیجتاً آدھا ملک ذلت آمیز فوجی اور سیاسی شکست کے بعد اسی کے حوالے کرنا پڑا۔ سانحہِ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھنے کے بجائے ملک  کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کو  اسی فوج نے چلتا کیا جس کو  اس نے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی تھی۔ محض اس پر بس نہ کیا نوے روز کا وعدہ کرکے 11 سال ملک پر  حکومت کی۔

یہ ملک کے سیاہ ترین 11 سال تھے ۔ منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی لگایا گیا۔ بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا ۔سیاسی کارکنوں پر جبرو استبداد کے پہرے بٹھائے گئے ۔ نہ  صرف انھیں  بل کہ صحافیوں کو بھی کوڑے مارے گئے۔ذرائع ابلاغ پر کڑا سنسر شپ عائد تھا ۔ اقتدار کو طول دینے کے لئےاسلام کا نام استعمال کیا گیااور ملک کو فرقہ ورایت کی آگ میں جھونکا اورمعاشرے کو تقسیم در تقسیم کردیا۔ نام نہاد تزویراتی گہرائی  کی تلاش میں ملک کو دہشت گردی کی اتھاہ گہرائیوں دھکیل دیا  جس کے نتیجے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا جب کہ آرٹ اور کلچر گناہ ٹھہرا ۔ مجلسِ شوریٰ اور کبھی ریفرنڈم تو کبھی غیر جماعتی انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا۔

کہنے کو تو بظاہر  17 اگست 1988ء کے بعد  َ12 ،اکتوبر 1999ء تک ملک میں جمہوری حکومتیں قائم رہیں مگر در حقیقت  یہ سارا عرصہ بھی فوج کے زیرِ انتظام ہی رہا۔ 1999ء میں کارگل  جنگ  کی مہم جوئی کے بعد فوجی قیادت  اور  وزیرِ اعظم کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے نتیجتاً اکتوبر 1999ء میں چیف آف آرمی سٹاف  پرویز مشرف نے وزیرِ اعظم کو چلتا کیا اور خود ملک کے چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے۔ پرویز مشرف  نےبھی اپنے پیش رو آمروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پہلے تو پرانی قیادت کو سیاست  سے دور کیا اور پھر بلدیاتی  انتخابات  کے ذریعے نئے سیاست دانوں کی ایک کھیپ تیار کی۔

حسبِ سابق پرانی مسلم لیگ سے ایک نئی مسلم لیگ کشید کرکے مرضی کی حکومت تشکیل دی ۔ سات نکاتی  ایجنڈے کی چھتری تلے معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ نائن الیون آگیا  ۔مشرف نے مردِ مومن مردِ حق  ضیاالحق کے تیار کردہ نظریاتی لشکروں کو اب کی بار مذہب کی بجائے روشن خیالی کی چابی دے دی ۔ بات نہ ماننے والے کل کے مجاہد آج کے دہشت قرار پائے۔امریکہ کو فضائی اڈے اور لاجسٹک سپورٹ کے نام پر افغانستان پر یلغار کی راہ داری دے دی۔کئی لوگوں کو امریکہ کے حوالے کرکے ڈالر کمائے گئے۔طاقت کے زعم میں مبتلا جنرل نے اکبر بُگٹی کو مار کر بلوچستان میں جاری بد امنی کی آگ کو مزید ہوا دی ۔

وقت کے قاضی و القضا ء کو برطرفی کے نتیجے میں وکلاء تحریک چل نکلی ۔ اسی اثناء میں ملک کی نمایاں ترین سیاست دان محترمہ بے نظیر بھٹو کو جان کی قربانی دینی پڑی۔ ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو پرویز مشرف کو ملک سے بے حال ہو کر جانا پڑا۔ باقی کی تاریخ تو کل کی بات ہے کیسے میمو گیٹ آیا۔ کیسے اسلام آباد میں کینڈا سے  انقلاب آکے برپاء ہوگیا۔ کیسے وزیر اعظموں کو بے تو قیر کرکے  اقتدار اور ملک سے نکالا جاتا رہا۔  جنرل باجوہ صاحب کے ہائبرڈ رجیم  کوبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اور تبدیلی کا بستر گول ہوگیا۔ آج ہم اسی نازک دور سے گزر رہے ہیں جو کسی ستم ظریف کے بقول پچھلے چھہتر برسوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

قدرتی وسائل سے مالا مال، سیاحت کے بے پناہ پوٹنشل والا،زرعی ملک،  محنتی ،قابل عوام کے ہوتے ہوئے بھی  قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا ہمیں کس چیز پر فخر کرنا ہے اور کن غلطیوں  کو سدھارنا ہے۔  سوال یہ ہے کہ اگر  سیاست دان ملک چلانے کے قابل ہوتے تو  کیا فوج غالب آتی؟

مٹھی بھر اشرافیہ کے لئے تو یہ ملک جنت ہوگا۔ صاحبان اختیار کو تو ہرا ہی سوجھتا ہے  مگر عوام کے لئے  ملکِ عزیز امتحان گاہ بن چُکا ہے۔ منیر  نیازی نے شاید ایسی ہی کسی کیفیت میں کہا تھا

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز ترہے اور سفر آہستہ آہستہ

آج یومِ آزادی پر چراغاں ہوگا۔ قومی پرچم لہرائے جائیں گے ۔ لڑکے بالے موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر  لوگوں کے کان پھاڑیں گے ۔ بے سُرے باجوں کا شور ہمیں یاد کرائے گا کہ آج کےدن ہم آزاد ہوئے تھے ۔ اگلے دن ہم  سب کچھ بھول بھال کر اگلے سال کے ایسے ہی دن کا انتظار کریں گے ۔ پورا سال  پھرکسی مسیحا کی آمد  کے لئے دعائیں کریں گے ۔ اللہ اللہ خیر صلاّ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp