سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے 10 کروڑ روپے ہرجانے کے نوٹس کے حوالے سے متعلق وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں نہ تو ہرجانے کا کوئی نوٹس موصول ہوا ہے اور نہ ہی اس خبر سے متعلق انہیں کسی قسم کی معلومات ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق انہیں یہ خط مل چکا ہے۔
یاد رہے کہ جاوید چوہدری نے گزشتہ دنوں نجی ٹی وی سما کے پروگرام ’میرے سوال‘ میں اینکر پرسن منیب فاروق سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اختر مینگل کی جانب سے انوارالحق کاکڑ کے نگراں وزیراعظم بننے پر اعتراض اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ بلوچستان میں ان 2 قبائل کی بہت پرانی دشمنی ہے۔
مزید پڑھیں
جاوید چوہدری کو پرانی دشمنی کا دعوٰی مہنگا پڑ گیا تھا کیونکہ بلوچستان ہائیکورٹ کے وکیل کاشف کاکڑ ایڈووکیٹ نے ان پر غلط بیانی کا الزام عائد کرتے ہوئے وکیل غلام عباس منڈوق ایڈووکیٹ کے ذریعے 10 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا یہ بیان حقیقت کے برعکس اور بلوچستان کے حوالے سے مین اسٹریم میڈیا کی لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جاوید چوہدری کی غلط بیانی سے بلوچستان کے عوام کو انتہائی دکھ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس بات کا احساس ہوا کہ اسلام آباد کے حکمران تو ویسے بھی بلوچستان سے لاتعلق ہیں مگر ملک کے صحافیوں کو بھی بلوچستان کے حوالے سے بنیادی باتوں کا علم نہیں ہے۔
جاوید چوہدری کے دعوے کے مطابق اختر مینگل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے ایسے شخص کی نامزدگی کی گئی ہے جس سے ہمارے لیے سیاست کے دروازے بند کردیے گئے، آپ کے اس طرح کے فیصلوں نے ہمارے درمیان مزید دوریاں پیدا کر دی ہیں۔
بی این پی رہنما کے خط میں مردم شماری پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ گزشتہ مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی جو قریباً 2 کروڑ 24 لاکھ بنتی تھی اسے 73 لاکھ کم کر دیا گیا ہے۔