میں بھی ہر سال 14 اگست کے دن خود کو تھوڑا سا الگ محسوس کرتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ واقعی الگ ہوں یا لگتا ہے کہ الگ ہوں۔ اوپر سے عقیل عباس جعفری جیسے محقق نما دشمن زندگی چین سے نہیں گزارنے دیتے اور بار بار ہم سادہ لوحوں کے دلوں کو وسوساتے رہتے ہیں۔
مثلاً بچپن سے یہ سن سن کے اچھی بھلی گزر رہی تھی کہ پاکستان ایک منفرد ملک ہے کیونکہ یہ 27 ویں رمضان کی شب یعنی لیلتہ القدر کے موقع پر آزاد ہوا۔ ہمارے اذیت پرست محقق مسٹر جعفری نے بس یہ کیا کہ سنی سنائی پر یقین کرنے کے بجائے 1947 کا رومن اور ہجری کیلنڈر دیکھ لیا اور دل کو دھکا سا لگا کہ 3 جون 1947 کے برطانوی شاہی اعلانِ آزادی، 15 اگست 1947 کی صبح جناح صاحب کے پہلے تہنیتی قومی خطاب، 15 اگست کو شائع ہونے والے اخبارات اور آزادی کے ایک برس بعد تک چھپنے والے ڈاک ٹکٹوں کے مطابق ہم بھی دراصل بھارت کی طرح 15 اگست کو ہی آزاد ہوئے تھے۔ اور 27ویں رمضان کی شب بھی 15 اگست کو ہی پڑتی تھی۔
مگر ہوا یوں کہ جانے کیوں 29 جون 1948 کو لیاقت علی خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اب ہم اپنا یومِ آزادی 14 اگست کو ہی منایا کریں گے۔ کیوں؟ ہماری مرضی۔
اس بابت کابینہ اجلاس میں کس وزیر نے کیا دلیل دی۔ اس اچانک فیصلے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کابینہ اجلاس کے منٹس کہاں ہیں؟ بس گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا ہے کہ گورنر جنرل نے بھی اس تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ منظور کر لیا تو دستخط بھی ضرور کیے ہوں گے؟
بہرحال جب طے ہو ہی ہو گیا کہ آئندہ سے 15 اگست کو ہی 14 اگست سمجھا جائے بھلے اعلانِ آزادی کی شاہی دستاویز میں کچھ بھی لکھا ہو۔ اس کے بعد ہم نے نا صرف عیسوی کیلنڈر بدلا بلکہ 27ویں رمضان کی شب بھی 15 اگست 1947 سے کھسکا کے 14 اگست پر نافذ کر دی۔ چنانچہ آج تک ہر نصابی کتاب میں یہی لکھا ہے اور ہر منبر پر بیٹھا واعظ یہی کہتا ہے کہ یہ ملک 27ویں شب کا تحفہ ہے۔ اسے کہتے ہیں تاریخ کی کنپٹی پر پستول رکھ کے خود کو منوانا۔
بات محض 14 یا 15 اگست تک نہیں رکی۔ بلکہ اس سے بھی 7 برس پہلے لاہور کے منٹو پارک کے مسلم لیگی جلسے میں 23 مارچ کو شیرِ بنگال اے کے فضل الحق قرار داد پاکستان پیش کرتے ہیں۔ دھواں دار تقاریر ہوتی ہیں۔ اگلے دن 24 مارچ کو بھی اس قرار داد پر مندوبین کی تقاریر جاری رہتی ہیں اور پھر رات ساڑھے گیارہ بجے یہ قرار داد بھی چند دیگر قراردادوں کے ساتھ منظور کر لی جاتی ہے۔
مگر ہمیں آج تک یہی بتایا جا رہا ہے کہ قرار دادِ پاکستان 23 مارچ کو منظور ہوئی۔ یومِ پاکستان منانے کا رواج بھی پاکستان بننے کے 9 برس بعد شروع ہوا جب 23 مارچ 1956 کا آئین نافذ ہوا اور یہ دن اگلے 2 برس بطور یومِ جمہوریہ منایا جاتا رہا۔
ایوب خان نے 56 کا آئین منسوخ کر دیا تو 23 مارچ کا نام بھی بدل کے یومِ پاکستان کر دیا اور اس کے ڈنڈے کھینچ تان کے 23 مارچ 1940 سے جوڑ دیے گئے کیونکہ 24 مارچ 1940 نے بساطِ ریاضی پر ایوب خان کا خواہشاتی مہرہ بننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کی سزا 24 مارچ کو یوں ملی کہ اسے 23 مارچ میں ضم کر دیا گیا۔ بالکل ویسے جیسے 27ویں رمضان کی شب 15 سے 14 اگست میں شفٹ ہو گئی۔
محقق اختر بلوچ مرحوم لکھتے ہیں کہ 1940 کی قرار دادِ لاہور سے 2 برس قبل 1938 میں کراچی میں جناح صاحب کی زیرِ صدارت صوبائی مسلم لیگ کے جلسے میں ایک علیحدہ مسلمان ملک کی جدوجہد تیز کرنے کے بارے میں مولانا عبدالمجید سندھی کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی۔ مگر ہماری نصابی کتابوں میں اس قرارداد کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
اسی طرح 1970 کے اوائل تک سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی پرائمری جماعتوں کی کتابوں میں قائدِاعظم ٹھٹھہ کے ایک لبِ دریا گاؤں جھرک میں پیدا ہوتے رہے۔ جب جناح صاحب کا تعلیمی ریکارڈ اسلام آباد منتقل ہوا تو جائے پیدائش بھی ٹھٹھہ سے کراچی کے وزیرمینشن شفٹ ہو گئی۔ تب سے الحمدللہ وہیں پر ہے۔
اسی طرح جناح صاحب کا اصل یومِ پیدائش کیا ہے؟ اس بابت محققین نے برسوں سر کھپانے کے بعد فیصلہ کیا کہ دستاویزات میں درج 3 مختلف تاریخوں کو 25 دسمبر میں ضم کر دیا جائے۔
اگر پاکستان ہزار برس پہلے قائم ہوتا تو تاریخوں اور روایات کا خلط ملط ہونا یا تاریخی یادداشت گڑبڑانا سمجھ میں آتا ہے۔ مگر یہ تو پچھلے اسی برس کی کہانی ہے اور اس کہانی میں نا صرف نئے کردار بلکہ تاریخیں بھی جمع تفریق ہوتی چلی گئیں۔ اس مصنوعی اکھاڑ پچھاڑ سے ریاست کو کون سے نفلوں کا ثواب ملا ؟ البتہ نقصان یہ ہوا کہ جب سامنے کے بڑے بڑے تاریخی واقعات کی وقوع پذیری بھی متنازعہ بیانیے کی نذر ہو جائے تو باقی دنیا ہمارے دیگر حقیقی دعوؤں پر بھی یقین نہیں کر پاتی۔
تو کیا ہمارے ہاں حقائق و واقعات کی تصیح کا بھی رواج ہے؟
ضرور ہوگا۔ ثبوت مل جائے تو مجھے بھی بتائیے گا۔