آپ بالکل درست سمجھے یہ لوہے کی ایک چھوٹی سی چابی ہی تو ہے، جو بظاہر کسی کام کی نہیں لگتی مگر آپ یہ جان کر یقیناً حیران ہوں گے کہ یہ وہ تاریخی چابی ہے جس نے1947 میں وطن عزیز پاکستان کے لیے ہجرت کرنے والے بے سرو سامان ہزاروں مہاجرین (پاکستانیوں) کی جان بچائی تھی۔
آزادی کائنات کی حسین ترین نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، آزادی کی قیمت ان سے پوچھیں جنہوں نے غدر سے آزادی کی صبح تک اپنے پیاروں کو اس نعمت پر وارا تھا۔ آزاد وطن میں سانس لینے کے لیے جان اور گھربار ہی نہیں عزت و آبرو کی قربانی بھی دی تھی۔ ہجرت کے دوران پیاسے لوگوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا تھا۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ نچھاور کرکے آزادی کی قیمت چکائی وہی آزادی کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہیں۔
جو چابی آپ دیکھ رہے ہیں یہ دراصل ریل گاڑی کی چابی ہوا کرتی تھی جو قیام پاکستان کے بعد بھی خاصے وقت تک ریل گاڑیوں میں استعمال کی جاتی رہی تھی۔ اس چابی کے ذریعے ریل گاڑی سے جڑی تمام بوگیوں کے دروازے کھولے اور بند کیے جاتے تھے۔
اس لوہے کی عام سی چابی نے 1947 کے فسادات میں ہزاروں مہاجرین کی جان کیسے بچائی اس ناقابل فراموش داستان کا آغاز موجودہ بھارتی ریاست مہاراشٹرا سے ہوتا ہے، جہاں سے اس واحد خوش قسمت ریل گاڑی کے سفر کا آغاز ہوا جو بلوائیوں اور مذہبی جنونیوں کے حملوں اور ہر قسم کی مذموم کوششوں سے بچ بچا کر کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوئی، مذکورہ ریل گاڑی کے دروازے اسی لوہے کی چابی سے بند کیے گئے تھے۔
مہاراشٹرا کے علاقے پلگاؤں سے ریل گاڑی نے سفر کا آغاز کیا، جس میں سینکڑوں مہاجرین سوار تھے، پھر ریل گاڑی واردھا اور ناگپور سے ہوتی ہوئی جبل پور پہنچی۔ یہ وہ ریلوے اسٹیشن تھا جہاں سے اس ریل کو بحفاظت کراچی تک پہنچانے کی ذمہ داری میجر ایس ایم رفیع کو سونپی گئی تھی، جنہیں جبل پور ریلوے اسٹیشن پر یہ چابی اور کچھ ضروری کاغذات بھی دیے گئے تھے۔
میجر ایس ایم رفیع اس خوفناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جبل پور تک ریل گاڑی میں ہزاروں مہاجرین سوار ہو چکے تھے۔ گاڑی میں مزید گنجائش بھی نہیں تھی کہ رستے سے کسی کو سوار کرایا جا سکے، اور ریل گاڑیوں پر حملوں کی اطلاعات بھی متواتر آ رہی تھیں اس لیے انہوں نے اسی چابی کی مدد سے ریل کی تمام بوگیوں کو بند کر دیا تھا تاکہ جنونی حملہ آور مسافروں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
یوں مہاراشٹرا سے شروع ہونے والا سفر واردھا، ناگ پور، جبل پور، جھانسی، دہلی، سونی پت، پانی پت، انبالہ، پٹیالہ، نابھہ، جند، فیروزپور، اٹاری اور لاہور سے ہوتا ہوا کراچی ریلوے اسٹیشن پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ اس 1200 میل سے زائد کے سفر میں کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ تمام تفصیلات میجر ریٹائرڈ ایس ایم رفیع نے 1967 میں تحریر کرکے پاکستان ریلوے کے حوالے کی تھیں۔
میجر ریٹائرڈ ایس ایم رفیع لکھتے ہیں کہ ’جو ان آنکھوں نے دیکھا خدا دشمن کو بھی نہ بتلائے (دکھلائے) آج 56 سال (دم تحریر) سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن زخم اب بھی ہرے ہیں، جب خیال آتا ہے، رُواں رُواں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دماغ ماؤف ہو جاتا ہے، دل سے یہ آواز آتی ہے پاکستان نے جو اپنی بقا کی قیمت ادا کی ہے مولائے کریم تو اس کو نظر بد سے کوسوں دُور رکھنا، اس کو ہر آفات و بلیات سے بچانا اور اس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دے، آمین بلکہ ثم آمین۔‘
میجر ریٹائرڈ ایس ایم رفیع نے اپنے سفر کو درد ناک قصہ قرار دیتے ہوئے اسے 8 نکات میں بیان کیا ہے۔
1۔ یہ چابی جس نے میرے اور میرے ساتھیوں، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی کی انمول زندگی بچائی۔ ٹرین کے دروازے بند کر دیے گئے اور اس طرح شرپسندوں کا ٹرین پر حملے کا خطرہ کم ہو گیا یہی ایک بڑی ذمہ داری تھی جو اس ناچیز نے ادا کی۔
2۔ اس کے علاوہ مہاجر یا مہاجروں کے روپ میں بنے (دھارے) ہوئے لوگ جب یہ سنتے کہ یہ گاڑی پاکستان جا رہی ہے تو وہ بھی یلغار کر دیتے اور اپنی اپنی دکھ بھری داستان سناتے لیکن ان میں سے کتنے شرپسند لوگ ہوتے تھے جو لبادہ بدل (اوڑھ) کر اور نام نہاد مہاجر بن کر ٹرین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تاکہ اپنی ناپسندیدہ کارروائیوں کو جلا بخش سکیں لیکن دروازے بند ہونے اور سخت حفاظتی انتظام ہونے کی وجہ سے وہ ٹرین کے قریب نہ آ سکتے تھے۔
3۔ سب سے بڑا کام جو اس چابی نے کیا وہ ان بلوائیوں اور شرپسندوں کی نظر بد سے بچنا تھا۔ وہ سویلین کپڑوں میں اپنے تمام ہتھیار لہراتے ہوئے پلیٹ فارم پر گھومتے اور دندناتے پھرتے اور غلیظ نعرے لگاتے، للچائی ہوئی نظروں سے ہم کو دیکھتے اور کف افسوس ملتے ہوئے رہ جاتے۔
4۔ علاوہ ازیں ٹرین کے دروازے بند ہونے کی وجہ سے وہ نام نہاد اور کرتا دھرتا جو کہتے تھے کہ ہم ٹرین کی تلاشی لیں گے کہ آپ اپنے ہمراہ بہت سے لوگ اور اسلحہ لے جا رہے ہیں۔ سختی حفاظتی انتظام کی وجہ سے ٹرین کے قریب نہ پہنچ سکتے تھے منہ کی کھا کر واپس چلے جاتے۔
5۔ سب سے بڑا خطرہ رات کو گھات لگا کر فائرنگ کرنے والے (Snipers) سے ہوتا تھا لیکن اس رب کریم نے اپنی رحمت سے ہم کو بالکل محفوظ رکھا۔
6۔ اس وقت مضبوط سے مضبوط ارادے کا انسان بھی اپنے اعصاب ڈھیلے ہوتے ہوئے محسوس کرتا تھا۔ ذرا سی لغزش بھی آپ کو بے پایاں نقصان سے دو چار کر سکتی تھی۔ اس وقت اپنے ہوش وحواس قائم رکھنا ہی وقت کی اہم ضرورت تھی۔ آپ کے بزرگوں نے کیا قیمت ادا کی وہ صرف اور صرف وہی جانتے تھے۔
7۔ اس ٹرین کی سلامتی جس میں ہزاروں جانیں تھیں اس چابی اور بڑے سخت سے سخت انتظامی نظام کی مرہون منت تھی۔
8۔ امید ہے اس چابی کی معروضات سماعت (پڑھ) کرکے آپ کو یقین ہو گیا ہو گا اس چابی سے اپنا کرشمہ ساز کردار ادا کیا۔ کیا اب بھی آپ اس کو کرشمہ ساز ہونے کی سند عطا نہیں کریں گے۔
ان تمام معروضات کا مطلب یہ تھا اور آپ کے گوش گزار کرنا تھا کہ یہ ہماری ٹرین ان تمام آفتوں اور کلفتوں کو عبور کرکے بخریت وعافیت اپنی منزل مقصود تک پہنچی۔ یہ پہلی ٹرین تھی جو کسی حادثے کے بغیر اپنی منزل مقصود کو پہنچی۔ کسی کو ذرا برابر بھی گزند نہ پہنچا۔
تمام مکین (مسافر) خوش وخرم اپنے عزیز دوستوں اور ملاقاتیوں سے مل کر یک جان اور یک قالب ہو گئے تھے۔ میں ان تمام بزرگوں اور ٹرین کے مکینوں (مسافروں) کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں جنہوں نے قرآن پاک کی تلاوت کی اور رب العزت کے حضور میں، اس ٹرین اور اس کے مکینوں (مسافروں) کی منزل مقصود تک پہنچنے کی پُرسوز دعا کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو قبولیت کا درجہ دیا بس رہے نام اللہ کا۔
پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861 ء کو کراچی تا کوٹری ریلوے لائن سے ہوا اور پھر 1881ء میں گولڑہ ریلوے اسٹیشن بنا۔ 142 سالہ گولڑہ ریلوے اسٹیشن قیام پاکستان کا امین بھی ہے۔ صدیوں پرانے برگد کے 17 درختوں کے سائے میں وکٹورین طرز تعیمر کی عمارت سب کی توجہ مرکوز کرتی ہے۔
اسلام آباد کا گولڑہ ریلوے اسٹیشن پاکستان کا سب سے خوبصورت اور پُر سکون ریلوے اسٹیشن ہے۔ اسے 1912 میں جنکشن کا درجہ دیا گیا تھا، یہ اسٹیشن ارگرد کے دیہات کے رہائشیوں کو قریباً ڈیڑھ صدی سے سفری سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ گولڑہ ریلوے اسٹیشن، پاکستان ریلویز کا پہلا عجائب گھر قائم ہونے کی باعث مزید اہمیت اختیار کر چکا ہے، اکتوبر 2003 میں قائم کیے گئے اس عجائب گھر کو پاکستان ریلوے ہیریٹیج میوزیم بھی کہا جاتا ہے۔
میوزیم میں برطانوی راج کے ریلوے سسٹم سے وابستہ آلات اور یادگاریں جمع کی گئی ہیں۔ اسٹیشن پر جہاں نیروگیج پٹڑی پر کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے انجن، بوگیاں، لفٹر اور ٹرالیاں موجود ہیں۔ وہیں میوزیم میں مٹی کے تیل سے روشن ہونے والی قدیم سگنل لائٹس، آئل لیمپس، ریلوے ٹولز، بندوقیں، قدیم پنکھے، برتن، گھنٹیاں، ٹیلیون سیٹ، ٹرین ماڈلز، چولہے، ہیٹرز، طبی آلات، فرنیچر، لاٹینیں، وقت بتاتے گھڑیال، دستاویزات، تصاویر اور بے شمار نادر اشیا موجود ہیں۔
برطانوی راج سے تعلق رکھنے والی بیشتر یادگاریں میوزیم اور اسٹیشن کی شان ہیں، جب پاکستان ریلویز کو نارتھ ویسٹرن ریلوے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہاں قائداعظم کے زیر استعمال برتن، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کیروسین لیمپ اور اور دونوں شخصیات کے زیر استعمال بوگیاں بھی موجود ہیں۔
جی ہاں! یہی وہ میوزیم ہے جس کے ایک کونے میں میجر ریٹائرڈایس ایم رفیع کی لکھی تحریر، ان کی تصویر، ہاتھ سے بنایا گیا نقشہ اور وہ چابی بھی موجود ہے جو کسی ایسے محقق کی منتظر ہے جو اسے بتا سکے کہ میجر ایس ایم رفیع کہاں ہیں؟