عام انتخابات کب ہوں گے؟ نگراں حکومت بننے کے باوجود بے یقینی کی صورتحال

منگل 15 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے حوالے سے آئینی و قانونی ماہرین سے لے کر عام آدمی تک میں ایک تشویش پائی جاتی ہے۔ جہاں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سے 90 روز کے اندر عام انتخابات کا انعقاد ایک قومی ذمے داری ہے وہیں آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ عام انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں آخری منظور شدہ مردم شماری کے مطابق کی جانی چاہییں۔

مشترکہ مفادات کونسل نے 5 اگست کو امسال ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دی جس سے انتخابات کا انعقاد التوا میں پڑ گیا ہے۔ اسی حوالے سے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہوئے 6 دن ہو چکے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تاحال انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا۔

رضا ربانی کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری کے تناطر میں یہ واضح کرنا چاہیے کہ نئی حلقہ بندیوں میں کتنا وقت لگے گا اور عام انتخابات کا انعقاد کب تک ممکن ہو سکے گا کیونکہ آئین میں مذکور 90 روز کی مدت سے اگر انتخابات تجاوز کرتے ہیں تو اس سے پاکستان کے وفاق کو خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

میں رضا ربانی کی تشویش میں شریک ہوں، احمد بلال محبوب

پاکستان میں جمہوریت اور انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے ادراے ’پلڈاٹ‘ کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ رضا ربانی کی تشویش میں شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بتانا ہو گا کہ نئی حلقہ بندیاں کیوں ضروری ہیں اور اس کے لیے کتنا وقت درکار ہے، یہ بات واضح کرنی چاہیے کیوں کہ الیکشن کمیشن کی خاموشی کی وجہ سے تشویش ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس: عام انتخابات کی تیاریوں کی ہدایت

احمد بلال محبوب نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر ہوں گے یا پرانی حلقہ بندیوں پر، کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل کے جس اجلاس میں نئی ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دی گئی اس میں نگران وزرائے اعلیٰ کے شریک ہونے پر پابندی تو نہیں لیکن آئین یہ کہتا ہے کہ نگران حکومتیں بڑے فیصلے نہیں کر سکتیں اور مردم شماری کی منظوری یقیناً ایک بڑا فیصلہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ بالآخر سپریم کورٹ میں جائے گا اور وہاں حکومت کہہ سکتی ہے کہ چونکہ ارجنٹ نوعیت کا معاملہ تھا اس لیے نگران حکومتوں کو اس میں شامل کیا گیا۔

ملک کے جمہوری مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہاکہ اس وقت انتخابات وقت پر کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

پنجاب اور ’کے پی‘ میں انتخابات نہ ہو سکے، تب رضا ربانی کدھر تھے، جی ایم چوہدری

اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے کہا کہ سبکدوش ہونے والی ساری اسمبلی، کابینہ اور سینیٹ نے مقررہ وقت سے پہلے اسمبلی تحلیل کر کے فراڈ کیا ہے تاکہ انتخابات میں تاخیر کا جواز بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہاکہ رضا ربانی صاحب اس وقت کہاں تھے جب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات نہیں کروائے گئے۔ رضا ربانی کی اپنی پارٹی کا وزیراعلیٰ نئی مردم شماری کی منظوری دے کر گیا ہے۔ ابھی تو دو چار ہفتے گزریں گے تو اصل صورتحال کا پتہ چلے گا۔

جی ایم چوہدری نے بھی انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1970 کے انتخابات میں تاخیر کی گئی تھی پھر اس کے نتائج کیا نکلے۔ اس لیے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ کسی سیاسی جماعت کو بزور بازو انتخابی عمل سے باہر کرنے کے نتائج بھی خوفناک ہو سکتے ہیں۔

آخری مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرنا آئینی ضرورت ہے، مدثر رضوی

پاکستان میں انتخابی عمل کے صاف و شفاف ہونے کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’فافن‘ کے ڈائریکٹر پروگرامز مدثر رضوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آئین کے آرٹیکل (5)51 کے مطابق ملک میں آخری مردم شماری کے مطابق وفاقی اکائیوں میں نشستوں کی تقسیم ہو گی اور پھر اس کے مطابق حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔

انہوں نے کہاکہ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری میں چونکہ وفاقی اکائیوں میں نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے چونکہ فرق نہیں پڑا اس لیے اس میں آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر نشستوں کی تعداد میں فرق آتا تو آئینی ترمیم ضروری تھی۔ آئین کے مطابق نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کا انعقاد ہونا چاہییے اور نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں میں 3 سے 4 ماہ لگ سکتے ہیں جس میں الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت اور فیصلے کرے گا۔ اس حساب سے ہمیں 15 دسمبر کی تاریخ کو مدنظر رکھنا چاہیے اور پھر اس کے بعد انتخابات کا انعقاد اگلے سال فروری میں ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں کیا حکومت عام انتخابات میں ایک سال تک کی توسیع کر سکتی ہے؟

مدثر رضوی نے کہاکہ اگر الیکشن کمیشن پرانی مردم شماری پر انتخابات کروا دیتا ہے تو کوئی نہ کوئی انتخابات کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلینج کر دے گا جس سے معاملات الجھ سکتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں کیا چاہتی ہیں۔

مدثر رضوی کے مطابق نئی مردم شماری اور اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں سے 90 روز میں انتخابات کی آئینی مدت تو یقیناً کمپرومائز ہو گی لیکن اس حوالے سے آئین میں ایک آرٹیکل 254 موجود ہے جس کے رو سے کوئی ایسا کام جس کے لیے کسی آئینی مدت کا تعین کیا گیا ہو اور وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت پر انجام نہیں ہوتا تو ایسا عمل غیر قانونی نہیں ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp