سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس 18 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ 18 اگست کو سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
رجسڑار سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے ہیں، اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے 16مئی 2023 کو آخری سماعت کی تھی، اور فیصلہ محفوظ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نیب ترامیم کیس کی 47 سماعتیں کرچکی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
نیب قوانین میں 15 ماہ میں 3 مرتبہ ترامیم، کیا تبدیلیاں لائی گئیں؟
پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی حکومت نے 15 ماہ میں نیب قوانین میں 3 مرتبہ ترامیم کی ہیں اور چیئرمین نیب کو مزید بااختیار بنا دیا ہے۔ ان ترامیم سے اپوزیشن کو نقصان کم ہوا ہے تاہم حکومت نے اپنے خلاف بنے کیسز ختم کرا لیے ہیں۔
ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت نے قیام کے 2 ماہ میں ہی 26 مئی 2022 کو چیئرمین نیب کی تقرری اور نیب کے دائرہ اختیار سمیت متعدد ترامیم منظور کیں جب کہ وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے۔ مذکورہ ترامیم کے بعد بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی صوبائی کابینہ کے فیصلے اب نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
نیب قوانین میں ترمیم کے بعد اب کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی جب کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا تاوقت یہ کہ کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فوائد کا حصول موجود ہو۔
نیب سربراہ کی تقرری کا طریقہ کار
اس بل کے ذریعے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے جب کہ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی کی صورت میں نیب کے کسی بھی سینیئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج دیا جائے گا۔ نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے مشاورت کا عمل ریٹائرمنٹ سے 2 ماہ قبل شروع کیا جائے گا اور 40 روز میں مکمل ہوگا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر چیئرمین نیب کے تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا جو چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔ بل کے مطابق چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جاسکے گا۔ نیب قوانین میں ترمیم کے ذریعے ڈپٹی چیئرمین کے تقرر کا اختیار صدر سے لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔
نیب قوانین میں ترمیم کے ذریعے احتساب عدالتوں کو ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ سنانے جب کہ نیب کو 6 ماہ کے اندر انکوائری کے آغاز کا پابند کیا گیا ہے۔
ریمانڈ کی مدت میں کمی اور اپیل کی مہلت میں اضافہ
نیب ترمیم کے بعد اب ملزم کو کیس دائر کرنے سے قبل گرفتار نہیں کیا جا سکے گا اور کسی بھی وقت گرفتاری کے لیے نیب کے پاس ٹھوس ثبوتوں کا ہونا ضروری ہوگا۔ اب ملزم کے جسمانی ریمانڈ کو 90 دن سے کم کرکے 14 دن تک کر دیا گیا ہے جب کہ ملزم کے لیے اپیل کا حق 10 روز سے پڑھا کر 30 روز کر دیا گیا ہے۔ کسی کے خلاف کیس جھوٹا ثابت ہونے پر ذمہ دار شخص کو 5 سال تک قید کی سزا ہو گی۔
ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت نے دوسری مرتبہ 5 اپریل 2023 کو نیب ترمیمی ایکٹ 2022 کی 17سیکشنز میں ترامیم کیں اور چیئرمین نیب کو مزید اختیارات دے دیے۔ اب زیر التوا انکوائریز جنہیں سب سیکشن 3 کے تحت ٹرانسفر کرنا مقصود ہو پر چیئرمین نیب غور کریں گے اور انہیں اختیار ہو گا کہ کسی اور قانون کے تحت شروع کی گئیں انکوائریز بند کر دیں۔
چیئرمین نیب ایسی تمام انکوائریز متعلقہ ایجنسی، ادارے یا اتھارٹی کو بھجوانے کے مجاز ہوں گے اور انکوائری پر مطمئن نہ ہونے پر چیئرمین نیب کیس ختم کرنے اور گرفتاری کی صورت میں ملزم کی رہائی کے لیے منظوری عدالت کو بھیجیں گے۔
چیئرمین نیب اگر کسی ادارے کو انکوائری کی ہدایت کریں گے تو متعلقہ اتھارٹی یا محکمہ انکوائری کا مجاز ہوگا اور عدالت مطمئن نہ ہونے پر کوئی بھی مقدمہ متعلقہ اداروں، ایجنسی یا اتھارٹی کو واپس بھجواسکے گی۔
بل کے مطابق نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پر متعلقہ محکمہ یااتھارٹی قوانین کےتحت مقدمہ چلا سکے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عدالت یا ایجنسی واپس ملنے والے مقدمے پرمزید کارورائی کی مجازہوگی اور نیب ایکٹ سیکشن 5 کےتحت زیر التوا انکوائریز، تحقیقات اور ٹرائلز قوانین کے تحت ہوسکیں گے۔
چیئرمین نیب کی غیرموجودگی پر ڈپٹی چیئرمین نیب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مجاز ہوگا اور ان کی بھی کی عدم دستیابی پر وفاقی حکومت سینیئر افسران کو قائم مقام چیئرمین بنانے کی مجاز ہوگی۔
نیب ترمیم کے مطابق نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پر متعلقہ محکمہ یا اتھارٹی اپنے قوانین کے تحت مقدمہ چلا سکے گی۔ احتساب ترمیمی ایکٹ 2022 اور 2023 سے پہلے جن مقدمات کے فیصلے ہوچکے وہ نافذ العمل رہیں گے تاوقت یہ کہ انہیں واپس لے لیا جائے۔
وعدہ معاف گواہ
صدارتی آرڈیننس کے بعد چیئرمین نیب کو مقدمے میں سے کسی فرد کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار مل گیا ہے۔ وعدہ معاف گواہ اپنی گواہی مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گا۔ تاہم گواہ نے کوئی بات چھپانے کی کوشش کی تو اس کی معافی منسوخ ہو جائے گی۔ اس صورت میں وعدہ معاف گواہ کی گواہی اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکےگی۔
کیس جھوٹا ثابت ہونے پر سزا
آرڈیننس کے مطابق کیس جھوٹا ثابت ہونے پر مقدمہ بنانے والے کو 3 سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔ صدارتی آرڈیننس کے تحت اب نیب ملزم کو 14 کے بجائے 30 روز کے لیے نیب کے تفتیشی ریمانڈ میں دیا جائے گا۔ متعلقہ عدالت کی اجازت سے اسے وقتاً فوقتاً 90 دن تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بدلے میں تحائف لینا یا دینا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔