تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد مسند اقتدار پر طلوع ہونے والی اتحادی حکومت اپنی مدت کی تکمیل کے بعد رخصت ہو چکی ہے۔ اگست کے آغاز میں عمران خان جب گرفتار ہوئے توان کی گرفتاری پراتحادی حکومت سمیت تمام سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا یہ مکافات عمل ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا اس ملک کے اکثر وزراءاعظم کو دوران اقتداریا اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد جیل یاترا ضرور کرنی پڑی تھی یا پھر انہیں عدالتوں میں ذلیل ہونا پڑاتھا۔ کیا وہ سب بھی مکافات عمل کا شکار ہوئے تھے؟
آپ حسین شہید سہروردی سے شروع کر لیجیے۔ سہروردی تقسیم ہند سے پہلے بنگال کے وزیراعظم تھے۔ قائداعظم کے پسندیدہ افراد میں شامل تھے۔ تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما تھے۔ 12 ستمبر1956ء کو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم بنے۔ چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کا سہرا حسین شہید سہروردی کے سر جاتاہے۔ 13ماہ بعد 17 اکتوبر 1957ءکو ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے مارشل لاءکی توثیق سے انکار کردیا جس کی پاداش میں ایبڈو کے تحت ان پر سیاست کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اوربعد ازاں”ریاست مخالف سرگرمیوں“ کے الزامات کے تحت گرفتار کرکے انہیں کراچی کی سینٹرل جیل میں ڈال دیا گیا۔
ہم نے انہیں غدار کے لقب سے بھی نوازا۔ وہ سیاست سے تائب ہوکرلبنان چلے گئے اور بیروت کے ایک ہوٹل میں دسمبر1963ء میں بے یارومددگار وفات پا گئے۔ موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی مگران کی موت آج تک ایک مسٹری(راز) ہے۔ ان کی موت واقعی طبعی تھی یا غیرطبعی یہ آج تک پتا نہیں چل سکا۔ کیا حسین شہید سہروردی بھی مکافات عمل کا شکار ہوئے تھے؟۔
اب آپ پاکستانی تاریخ کے مقبول ترین سیاست دان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف آ جایے۔ بھٹو جیسا کرشماتی لیڈرشاید ہی پاکستان میں دو بارہ آئے۔ آستینیں چڑھا کر اور گریبان کے بٹن کھول کر جب انہوں نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو عوام دیوانہ وار ان کے پیچھے چل پڑے۔ بھٹو کی کرشماتی شخصیت آج تک عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ پیپلزپارٹی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر ووٹ مانگتی ہے اور لوگوں نے بھٹو کے نام پر اسے تین مرتبہ مسند اقتدارپر فائزبھی کیا۔
کئی رہنما آج بھی بھٹو کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بھٹو جیسی گھن گرج اور سٹائل ان سے کوسوں دور ہے۔ بھٹو کہتے تھے ”میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے“ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کوئی لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کر سکا تھا تو وہ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے عوام ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بنے ہوں اور بھٹو عوام کے لیے۔ بھٹو فارن پالیسی کے ماہر تھے۔ 90 ہزار قیدی چھڑوائے، ایٹمی پروگرام کے بانی تھے،73ءکا آئین تخلیق کرایا اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہوگئے لیکن پھر اس بھٹو کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟
ہم نے اس کرشماتی لیڈر کو ایک ایسے مقدمے میں سزائے موت دے دی جس کو داخل دفتر ہوئے تین سال گزر چکے تھے۔ آج دنیا مانتی ہے ان کی پھانسی ایک عدالتی قتل تھا۔ بینچ میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی بعدازاں تسلیم کیا کہ وہ فیصلہ غلط تھا اور بعدازاں بھٹو کے مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے بھٹو کی پھانسی ایسا ظلم تھا جس کا تاوان ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اور شاید بھگتتے رہیں گے۔ کیا بھٹو کی پھانسی بھی مکافات عمل تھا؟ ہر گز نہیں، یہ مشتاقی عمل تھا، یہ انوارِ عمل تھا، یہ ظلم تھا اور اس ظلم پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہو گا۔
بے نظیر بھٹو دختر مشرق تھیں۔ طلسماتی شخصیت کی مالک تھیں۔ یہ اپریل 1986ءمیں جب لاہور ائیرپورٹ پر اتریں تو 10 لاکھ لوگوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔ ایسا استقبال آج تک شاید ہی کسی سیاست دان کو نصیب ہوا ہو ۔دو دفع پاکستان کی پرائم منسٹر رہیں اور بدقسمتی سے دونوں مرتبہ مدت پوری نہ کر سکیں۔90 کی دہائی میں ان پر متعدد کیسز بنائے گئے، ان کے مختلف کیسز میں وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے۔ ان پر اتنے مقدمات بنائے گئے کہ ایک دفع انہوں نے تنگ آ کر عدالتوں کو کینگرو کورٹس تک کہہ دیا۔جس طرح محترمہ کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا جس طرح ان کے خاوند کو11 سال پابندی سلاسل کیا گیاکیا یہ بھی مکافات عمل تھا؟9 سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد محترمہ جب اکتوبر 2007ءمیں وطن لوٹیں توخود کش حملے میں بال بال بچ گئیں۔ 27 دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسہ کر کے واپس جا رہی تھیں کہ راستے میں شہید کردی گئیں۔ یہ دن بھی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔
نواز شریف تین دفع پاکستان کے وزیراعظم بنے اور بدقسمتی سے تینوں مرتبہ مدت پوری نہ کر سکے۔ایوب خان کے بعد اگر پاکستان میں سب سے زیادہ انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل ہوئے تو وہ نواز شریف تھے۔ موٹر ویز ہوں، میٹروز ہوں، اورنج لائن ٹرین ہو، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، کراچی کا امن ہو، نیشنل ایکشن پلان ہو،ایٹمی دھماکے ہوں بلاشبہ نواز شریف کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر اس نواز شریف کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟
ان کے گلے میں پانامہ اور ڈان لیکس کا طوق ڈال دیا گیا۔ 28 جولائی 2017ءکو انہیں نااہل کر دیا گیااور بعد ازاں6 جولائی2018ءکو احتساب عدالت نے انہیں 10سال اور مریم نواز کو 7 سال قید کی سزا بھی سنا دی۔نوازشریف کو جس کیس میں نااہل کیا گیا اگر آپ اس کیس کو تفصیل کے ساتھ سے پڑھیں تو آپ اپنی ہنسی نہیں روک پائیں گے۔یہ بدترین فیصلہ تھا۔آپ اس کیس کی بنیاد پر آدھی سے زائد پارلیمنٹ کو نااہل کر سکتے ہیںلیکن چونکہ نوازشریف کی منجھی ٹھوکنے کا فیصلہ ہو چکا تھا لہٰذا انہیں نااہل بھی کیا گیا اور پابند سلاسل بھی کر دیا گیا۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہواکیا یہ سب بھی مکافات عمل تھا؟ ہرگز نہیں۔ یہ سب فیضان عمل تھا اور اس فیض کی سزا آج پورا ملک بھگت رہا ہے۔
اب آپ عمران خان کے طرز حکومت اور گرفتاری پر آ جائیں۔ عمران خان کا پونے چار سالہ دور حکومت حماقتوں کا شان دار ترین دور تھا۔ عمران خان کی تباہی میں تین لوگوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ عثمان بزدار، شہزاد اکبر اور خاتون اول بشریٰ بی بی۔ عثمان بزدارکتنے کریکٹر والے انسان ہیں آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ عمران خان نے اس شخص کے لیے اپنی ساری حکومت داﺅ پر لگا دی لیکن جب عمران خان پر کڑا وقت آیا تو اس شخص نے عمران خان سے اعلان لاتعلقی کرتے دیر نہیں لگائی۔
محمود خان بھی نااہل شخص تھا۔ فرح گوگی کی پنجاب میں تعیناتیوں میں کک بیکس کو دیکھ لیں۔ یہ بات زبان زدِعام ہے بشریٰ بی بی جادو ٹونے ،جھاڑ پھونک اورفال نکال کر حکومت چلاتی رہیں۔ قومی اسمبلی سے استعفے ہوں ، پنجاب اور کے پی اسمبلی توڑنا ہو، پنجاب کے ساتھ آئی جی تبدیل کرنے ہوں، پنجاب کے پانچ چیف سیکرٹریز کی تبدیلی ہو،اپنی بات سے یوٹرن لینا ہو، سائفر کا معاملہ ہو، القادر ٹرسٹ ہو،مخالفین کو جیلوں میں پھینکوانا ہو، منہ پر ہاتھ پھیر کر سیاسی مخالفین کو دھمکی دینا ہوان کے کسی بھی طرز عمل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا
لیکن جس طرح انہیں حکومت سے نکالا گیا اور جس دلاورانہ فیصلے پر انہیں گرفتار کیا گیا اس کا بھی کسی طرح دفاع نہیں کیا جا سکتا۔جس پھرتیلے نظام انصاف کے تحت عمران خان کو سزا دی گئی اس کے بعد ہر شخص انگلی دانتوں میں دبائے بیٹھا ہے۔ یہ مکافات عمل نہیں تھا بلکہ یہ وہ میوزیکل چیئر ہے جو نوے کی دہائی سے جاری ہے۔ ایک کی حکومت جاتی ہے تو دوسرا مٹھائی بانٹتا ہے اور دوسرے کی حکومت جاتی تو پہلا مٹھائیاں تقسیم کرنے لگ جاتاہے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے سیاست دانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ یہ آج بھی ایک دوسرے کی گرفتاری پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں اور بغلیں بجا رہے ہیں۔ حسین شہید سہروردی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک بے نظیر بھٹو سے لے کر نوازشریف اور عمران خان تک سکرپٹ وہی پرانا ہے صرف کردار بدلتے رہے ہیں۔
عمران خان گرفتار ہو چکا ہے اور اس وقت جیل میں ہے۔ سوال یہ ہے کیا عمران خان کی گرفتاری کے بعد ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہو چکے ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ترازوں کے دونوں پلڑے نہ اب برابر ہیں اور نہ ماضی میں برابر تھے۔ حسین شہید سہروردی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹوتک بے نظیرسے لے کر نواز شریف اور عمران خان تک ترازو کے پلڑے کبھی برابر نہیں رہے۔ یہ پلڑے اسی وقت ہی برابر ہوں گے جب ہمارے سیاست دان تاریخ سے سبق سیکھیں گے۔ یہ ایک دوسرے کی گرفتاریوں پر ناچنے کی بجائے متحد ہو کراپنا وزن کم زور پلڑے میں ڈال دیں گے تو ترازو کے پلڑے برابر ہو جائیں گے اور یہ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑے گا ورنہ سیاست دان اسی طرح کبھی دیار غیر میں بے یارو مدد گار فوت ہو جائیں گے۔ کبھی پھانسی لگیں گے۔ کبھی نااہل ہوں گے اورکبھی بی کلاس اور اے کلاس سہولیات کے لیے دہائیاں دیتے رہیں گے ،خدا کا خوف کریں کچھ تو تاریخ سے سبق حاصل کر لیں۔