بڑی پارٹیاں گھر سے کتنی سیٹیں ہار کر الیکشن مہم پر نکلیں گی؟

جمعرات 17 اگست 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں جنرل نشستوں کی تعداد اس وقت 266 ہے۔ پی پی، پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی 3 بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ تینوں ہی وفاقی میں حکومت بنا چکی ہیں۔ جب یہ سیاسی جماعتیں الیکشن لڑنے میدان میں اترتی ہیں۔ اس سے پہلے ہی گھر سے ہی یہ کئی سیٹیں ہار کر چلتی ہیں۔ نہیں سمجھے؟ پی ایم ایل این سندھ کی 61 قومی اسمبلی کی سیٹوں پر کدھر کھڑی ہوتی ہے؟ جواب ہے کہیں نہیں۔

مانگے تانگے کی کوئی سیٹ سندھ سے پی ایم ایل این کو اگر مل جائے کبھی تو صبر شکر بھی نہیں کرتی۔ سندھ سے سیٹ لے کر آنے والا سیاسی یتیم کی صورت بنائے بیٹھا رہتا ہے۔ اپنی قسمت کو کوستا سوچتا رہتا ہے کہ کدھر پھنس گیا۔ حساب کو آسان کرتے ہیں کہ پی ایم ایل این سندھ کی ساری 61 سیٹ مائنس کرکے الیکشن لڑنے نکلتی ہے۔

خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی 45 سیٹیں ہیں۔ پارٹی وہاں زیادہ سے زیادہ 10 قومی اسمبلی کی سیٹوں پر قابل عزت مقابلہ کر سکتی ہے۔ بلوچستان کی 16 سیٹ ہیں۔ کوئی دو 4 امیدوار مل گئے تو ٹھیک ورنہ وہاں بھی سارے صوبے سے فارغ۔

107 سیٹ کے خسارے کے ساتھ پی ایم ایل این الیکشن لڑنے جائے گی۔ اس پارٹی کی ساری گیم 159 سیٹوں کے گرد گھومے گی جو اسلام آباد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہیں۔ بات 266 جنرل سیٹوں کی ہو رہی ہے۔ پی ایم ایل این کو سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے اپنے سٹرانگ ہولڈ میں 85 فیصد سیٹیں جیتنا ہونگی۔ یہ کوئی آسان ٹارگٹ ہے کیا؟ 2013 میں پارٹی نے 127 سیٹیں جیتی تھیں۔ تب قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستیں ہوتی تھیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت پنجاب کی 141، بلوچستان کی 16 اور خیبر پختونخوا کی 45 سیٹوں سے فارغ ہے۔ سندھ کی ساری 61 سیٹوں پر بھی یہ جیتنے کے قابل نہیں۔ پی پی مر کے 100 سیٹ پر مقابلہ کرنے اور جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ ظاہر ہے ساری نہیں جیت سکتی۔ 100 فیصد نتائج دے تو بھی سادہ اکثریت تک نہیں پہنچتی۔ یہ گھر سے ہی 150 سیٹ کے خسارے سے الیکشن میں جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی تمام 45، پنجاب کی تمام 141، اسلام آباد کی 3 اور کراچی کی 20 سیٹوں پر مضبوط ہے، جہاں جیت سکتی ہے۔ یہ راؤنڈ فگر کریں تو پی ٹی آئی سب سے کم 50 سیٹ کے خسارے سے الیکشن میں اترے گی۔ یہ راؤنڈ فگر میں قریباً 215 سیٹ بنتی ہیں۔

اب یہ وہ جگہ ہے جس سے آگے پی ٹی کے لیے بہت سے اگر ہیں۔ سوال ہی سوال ہیں۔ کپتان خود جیل بیٹھا ہے۔ جو ساتھ ہے وہ اندر ہے۔ جو باہر ہے وہ چھپا ہوا ہے۔ جو آزاد ہے وہ بولنے سے ڈرتا ہے۔ پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی راہنما اتنے دن گزرنے کے باوجود اب تک کپتان سے ملاقات کرنے جیل نہیں پہنچا۔ شاہ محمود قریشی بھی نہیں، قریشی صاحب کو کوئی کیا کہتا ہے۔

پی ٹی آئی اپنی اتنی یقینی سیاسی برتری کو مینیج کرنے کے کتنا قابل رہ گئی ہے۔ اس کے اتحادی اگر ادارے تھے تو وہ دور جا چکے، کارپوریٹ سیکٹر تھا تو پیچھے ہو چکا۔ عدالت میں حمایت تھی تو ڈگمگا چکی۔ ضمنی الیکشن بتاتے ہیں کہ ووٹر کھڑا ہے، کب تک کھڑا رہے گا؟ اب تک پی ٹی آئی نے ان چیک الیکشن مہم چلائی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی کا بوجھ ایسا ہے کہ پی ایم ایل این کی کمر توڑ رہا ہے۔

نوازشریف کی واپسی صورتحال کو کتنا بدلے گی؟ پی ایم ایل این کو الیکشن مہم چلانے کے لیے گھر سے 4 افراد تو میسر ہی ہیں۔ میاں نوازشریف، مریم نواز، حمزہ شہباز اور شہباز شریف۔ شہباز شریف کی تقریرں سن کر البتہ ہر اجتماع میں دو 4 لوگ لازمی سیاست سے توبہ تائب ہو جاتے ہیں اور مر جائیں گے ووٹ نہیں دیں گے کی قسم بھی کھا بیٹھتے ہیں۔

پی ٹی آئی سے استحکام پاکستان پارٹی برآمد کی جا چکی ہے۔ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کا ٹانگہ تیار کر لیا ہے۔ 9 مئی کی مذمت کرتے آہیں بھرتے اب تک لوگ پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس حلقوں میں اے کلاس کینڈیٹ زیادہ بچے نہیں، جو بچ گئے ہیں وہ رک نہیں سکیں گے، بی اور سی کلاس بھی نہیں رہے۔

کئی حلقوں میں سی اور ڈی کلاس امیدواروں کا مقابلہ مسلم لیگ نون، پی پی اور پی ڈی ایم کے اے کلاس امیدواروں سے ہوگا۔ اے کلاس سے مراد وہ امیدوار ہیں جو اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں، ان کے خاندان الیکشن لڑتے آ رہے ہیں۔

الیکشن سائنس نہ سمجھنے والے، الیکشن ڈے پر پرفارم کرنے کے لیے مشینری نہ رکھنے والے پی ٹی آئی کے سی اور ڈی کلاس امیدوار بڑا مسئلہ ہوں گے۔ یہ اپنی ساری برتری سنبھال نہیں سکیں گے نہ اس کو ووٹ میں تبدیل کر سکیں گے۔ انہیں پولنگ ایجنٹ کی کمی کا بھی سامنا ہو گا۔ کپتان اندر اور باہرلے پاکستانی باہر بیٹھے پی ڈی ایم کے قل پڑھ رہے ہوں گے۔ اس کا ووٹ پر کیا فرق پڑے گا؟

ویسے یہ باہرلے پاکستانی اس بار الیکشن مہم پر پاکستان آئیں اور آگے پنجاب پولیس کا حوالدار ان کے منتخب ٹویٹ کا پرنٹ آؤٹ لے کر کھڑا ہوگا، ادھر آ تیرے جن کڈھاں۔ اک 2 کے ساتھ یہ سین ہو گیا تو باقی ساروں کو بھی کن ہو جانے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ پھر برطانیہ امریکا میں پٹواریوں کا جلوس زیادہ جوش خروش سے نکالنے لگ جائیں۔ خیر یہ صرف اپنی شرارتی یا شیطانی خیالات کا ہی اظہار تھا۔ ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

الیکشن دلچسپ ہونے جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی گراؤنڈ پر برتری لیے ہوئے ہے۔ بس اک حکمت عملی اور ذرا سنبھل کر وہ میلہ لٹ سکتی ہے۔ لیکن یہ ہو گا کیسے اور کرے گا کون؟ اتنا سیانا سمجھدار اس پارٹی میں ڈھونڈے نہ ملے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp