بہت سے کام ہیں جو ہم آسانی سے ذاتی اور اجتماعی سطح پر کر سکتے ہیں۔ اِن سے ہماری اور دوسروں کی زندگی بہت آسان ہو سکتی ہے اور ہم خوشیاں دینے اور بانٹنے والے بن سکتے ہیں۔ یاد رکھیں خوشی دینے والے کو ہی خوشی ملتی ہے۔
مثلاً آپ کا حق ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے پہلے خالی ہونے والی سیٹ پر بیٹھیں، مگر آپ اپنا حق کسی بزرگ، بچے یا عورت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور اُسے سیٹ آفر کرتے ہیں تو آپ تصور کریں اگلے فرد کو کتنا اچھا لگے گا۔ جب دوسرے کو اچھا لگے گا تو آپ کو اطمینان کی دولت ملے گی۔ آپ کو لگے کا کہ آپ نے کچھ اچھا کیا ہے۔
اسی طرح بے تحاشا مثالیں ہیں۔ آپ کسی مارکیٹ، اسکول یا آبادی کے قریب سے گا ڑی میں جا رہے ہیں اور کوئی پیدل سڑک سے گزرنا چاہ رہا ہے۔ آپ گزرنے والے کے لیے گاڑی روک دیتے ہیں یا آہستہ کر دیتے ہیں۔ یقیناً گزرنے والا شکر گزار ہوگا۔ پیدل والے کی جگہ آپ خود کو رکھ کر بھی بات سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کسی مال، دوکان، بیکری، ریڑھی یا ڈھابے پر جاتے ہیں، وہاں آپ کوئی پراڈکٹ ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرآپ کی خواہش پوری کردی جاتی ہے تو آپ کو اچھا لگے گا اور آپ دوبارہ وہاں ضرور جانا چاہیں گے۔
جہاں انسان کو عزت ملتی وہ وہاں جانا پسند کرتا ہے۔ ایک دفعہ عید کے دنوں میں اپنے ایک دوست مرزا آصف کو کہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو عید بھی اپنے گھر نہیں کرتے بلکہ سُسرال کی طرف دوڑ لگائی ہوتی ہے۔ مرزا صاحب کہنے لگے کہ بندے کو ساری عمر اتنی عزت نہیں ملی ہوتی جتنی سُسرال میں ملتی ہے۔ ظاہر ہے بندہ پھر سُسرال ہی جانا چاہے گا۔
آج کل کم دیکھنے میں آتا ہے مگر ایک زمانے میں اسلام آباد میں بغیر اشارے والے چوکوں میں گاڑی والے ایک دوسرے کو رستہ دینے کے لیے رُک جاتے تھے۔ سڑک پر کھڑے آپ ہاتھ دیتے تو آسانی سے لفٹ بھی مل جاتی تھی۔
ایک اور بُری بات جس سے ہم سب اجتناب کر سکتے ہیں۔ جب کوئی اپنی گاڑی کو ریورس کر رہا ہو تو کم ہی کوئی انتظار کرتا ہے۔ گزرنے والی کی کوشش ہوتی ہے وہ فوراً گزر جائے۔ ایسا کرتے ہوئے اور جلدی سے گزرنے کی کوشش کرنے والا اور گاڑی والا دونوں مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ آسانی کے ساتھ اس مشکل سے بچا جا سکتا ہے۔
جنرل مشرف کے زمانے میں موٹر سائیکلوں کی تعداد میں اضافے کو معیشت میں بڑھوتری کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ بے شک تیزی سے ناپید ہوتی ہوئی پبلک ٹرانسپورٹ کے تناظر میں عام آدمی کے لیے موٹر سائیکل ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ مگر جس طرح مو ٹر سائیکل کی سواری کو کسی قانونی پابندی کے بغیر استعمال کیا جا رہا ہے وہ صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے۔ موٹر سائیکلز اور موٹر سائیکل کی اگلی شکل جسے دیہاتوں میں چاند گاڑی اور شہروں میں چنگ چی کے نام سے پکارا جاتا ہے جس طرح حادثات کا شکار ہوتی ہیں یا حادثات کا باعث بنتی ہیں وہ اعداد و شمار بھی بہت چونکا دینے والے ہیں۔ ایک گفتگو میں پاکستان کے مایہ ناز پلاسٹک سرجن ڈاکٹر معظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ نچلے دھڑ کے حادثات میں متاثر ہونے کے سب سے زیادہ کیسسز موٹر سائیکلز کی وجہ سے سامنے آتے ہیں۔
اسلام آباد سمیت پورے پاکستان میں سب موٹر سائیکل سواروں نے یہ مستقل فیصلہ کر رکھا ہے۔ ایک تو بغیر کسی پابندی کے جس رفتار پر دل کرے انھوں نے موٹر سائیکل چلانی ہے اور دائیں طرف سے اوور ٹیک کرنے کی بجائے گاڑی کے بائیں طرف سے ہی گزرنا ہے۔ زیادہ تر لوگ ہیلمٹ پہننے کا بھی تردد نہیں کرتے۔ اکثر نوجوانوں نے اگلی لائٹ ایسی لگوائی ہوتی ہے جو بار بار تیزی سے چمکنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامنے سے آنے والے کو زچ کرے۔
اگر ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے پر کڑی پابندی لگا دی جائے تو حادثات میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔ لائسنس کی پابندی سے ہو سکتا ہے ایک تہائی گاڑیاں کھڑی بھی ہوجائیں۔
جہاں تک پولیس کا معاملہ ہے تو پورے پاکستان میں خوش اخلاق پولیس ہمیں موٹر ویز یا گلگت بلتستان میں ملتی ہے۔ اگر خدانخواستہ عام آدمی کو پولیس کے کسی تھانے جانا پڑے تو تھانے کا منشی خاموشی کے لمبے وقفے کے بعد سلام کا جواب دیتا ہے۔ جس کا مقصد صرف بندے کو اوقات میں لانا ہی سمجھ میں آتا ہے۔ باقی قانون پر کتنا عمل درآمد ہو تا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ ایک زمانے میں عمران خان نے پولیس اصلاحات کا بہت چر چا کیا تھا۔ حکومت ملی تو پنجاب میں سابق آئی جی خیبر پختونخواہ واجد درانی کو پنجاب میں ایڈوائزر کے طور پر لایا گیا مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو مسلم لیگ ن کی حکومت پر جو الزامات لگائے ان میں سے ایک پولیس کا سیاسی استعمال بھی تھا۔
ایک زمانے تک یوٹیلٹی بلز مخصوص بنکوں میں جمع کروائے جا سکتے تھے۔ جب نواز شریف پہلی دفعہ وزیرِ اعظم بنے تو انھوں نے تمام بنکوں میں بل جمع کروانے کی سہولت پیدا کردی۔
چھوٹے چھوٹے اور آسانی سے ہونے والے کچھ کام ہوتے ہیں جو بظاہر چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان کا تاثر اور فائدہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ پولیس اصلاحات، قانون کی پابندی، عوام کی سہولت اور کچھ ایسے ہی اقدامات آسانی کے ساتھ کیے جا سکتے جن سے ریاست پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ باہمی طور پر ایک دوسرے کا خیال کرنے سے بھی معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی طور پر آسانی سے ہونے والے کچھ کام کرنے سے ہم اپنی ذاتی زندگیوں اور معاشرے کو بہتری کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔ پیرس اولمپکس میں نیزہ بازی میں سونے اور چاندی کے تمغے تو ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا نے جیتے ہیں مگر دونو ں کی ماؤں نے جس طرح ارشد اور نیرج کے بارے کہا کہ وہ بھی تو اپنا ہی ہے۔ بظاہر آسانی سے کہی ہوئی یہ بات پاک بھارت تعلقات کے تناطر میں درجنوں سفارت کاروں کی سفارت کاری پر بھاری ہے۔