پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ابتدائی مرحلے میں 23 نگراں وزرا کا انتخاب کر لیا ہے جن کی حلف برداری کی تقریب جمعرات کو ایوان صدر میں ہوئی۔
ابتدائی مرحلے میں نگراں وفاقی کابینہ 16 وفاقی وزرا ، 3 مشیران اور 4 معاونین پر مشتمل ہے۔
نگراں کابینہ کے اکثریتی ارکان اپنے شعبوں میں ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
سینیٹر سرفراز بگٹی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی انوار الحق کاکرڑ کی کابینہ کا حصّہ ہیں۔ سرفراز بگٹی کا تعلق بھی نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پارٹی سے ہے۔ وہ بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں اور انوار الحق کاکڑ کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہیں۔
احمد عرفان اسلم
احمد عرفان اسلم ماہر قانون ہیں اور ماضی میں مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں جہاں وہ اٹارنی جنرل آفس کے بین الاقوامی تنازعات کے یونٹ میں کام کرتے رہے ہیں۔ احمد عرفان اسلم کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں پیش ہونے والی پاکستان کی لیگل ٹیم کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔
جلیل عباس جیلانی
سابق سفیر جلیل عباسی جیلانی کو نگراں وزیرخارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ بطور نگراں وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آچکے ہیں۔
جلیل عباس جیلانی دسمبر 2013 سے فروری 2017 تک امریکا میں پاکستان کے سفیر اور اس سے پہلے مارچ 2012 سے دسمبر 2013 تک سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔
شمشاد اختر
شمشاد اختر نگراں کابینہ میں واحد خاتون رکن ہیں۔ انہیں دوسری مرتبہ نگراں وزیرخزانہ کا عہدہ سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اس سے قبل سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل بنائی جانے والی نگراں کابینہ میں بھی وہ بطور وزیر خزانہ شامل تھیں۔
شمشاد اختر گورنر سٹیٹ بینک رہ چکی ہیں اور اقوام متحدہ کی سفیر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ وہ ایک ماہر معیشت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
وہ اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر تھیں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے مشیر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دے چکی ہیں۔ شمشاد اختر نے ورلڈ بینک میں بطور نائب صدر بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔
لیفٹنٹ جنرل (ر) انور علی حیدر
لیفٹنٹ جنرل (ر) انور علی حیدر کو نگراں کابینہ میں وزیردفاع اور ڈیفنس پروڈیکشن کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ’نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم‘ کے چیئرمین کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) کے چیئرمین، ملٹری پولیس کمانڈنٹ اور ایڈوجنٹ جنرل کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
مرتضٰی سولنگی
سینیئر صحافی و تجزیہ نگار مرتضٰی سولنگی کو وفاقی وزیر اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ مرتضٰی سولنگی بین الاقوامی ادارے وائس آف امریکہ میں بھی کام کرچکے ہیں جب کہ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں انہیں بطور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔ وہ مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ ان کا شمار بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی )کے حمایت یافتہ صحافیوں میں بھی ہوتا ہے جب کہ حال ہی میں وہ اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے صحافیوں کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
گوہر اعجاز
چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن گوہر اعجاز کو نگراں کابینہ میں تجارت اور صنعت کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ وہ سابق سینیٹر مرحوم شیخ اعجاز احمد کے فرزند ہیں اور اعجاز گروپ آف کمپنیز کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔
وہ لاہور میں ’لیک سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ‘ کے بھی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کی خدمات کے لیے حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا ہے۔
ڈاکٹر عمر سیف
نگراں کابینہ میں بطور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف لمز یونیورسٹی سے گریجویٹ اور کیمرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔
انہیں شہباز شریف کے دور میں سنہ 2011 میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا اور پنجاب کابینہ کا بھی حصّہ رہ چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کا پہلا ٹیکنالوجی انکیوبیٹر بنایا اور 3 سو سے زیادہ منصوبوں کا آغاز کیا۔
ان کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں بھی ستارہ امتیاز سے نوازا۔ وہ سنہ 2015 سے 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
جمال شاہ
ادکار جمال شاہ کو وزیر برائے ثقافت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔
مدد علی سندھی
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ادیب مدد علی سندھی کو بطور وزیر تعلیم اور امور نوجوانان نگراں کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ سندھی لینگویج اتھارٹی کے بورڈ ممبر کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم جان
نگراں کابینہ میں وزیر صحت کا قلمدان چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ندیم جان کو دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ندیم جان اقوام متحدہ، یو ایس ایڈ، یورپی یونین سمیت مختلف بین الاقوامی این جی اوز کے ہیلتھ مشنز کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔
ان کا شمار پاکستان میں پولیو سرویلینس کا نظام قائم کرنے والے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ فاٹا کو مسلسل 2 سال پولیو فری کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے میں انہیں تمغہ امتیاز دیا گیا۔
انہوں نے فاٹا میں آنکھوں کے لیے آئی کیئر پروگرام کی بنیاد رکھی جبکہ فاٹا کے لیے پہلا صحت کا اصلاحاتی پروگرام بھی متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کامیاب پولیو فری پروگرام کے انعقاد کے بعد انہوں نے سوڈان میں پولیو ایمرجنسی مشن کی سربراہی کی۔ اس کے علاوہ وہ فلپائن میں بھی مختلف ہیلتھ مشنز کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔