نئی نویلی دلہن کو شادی کے چند روز بعد اکیلا چھوڑ کر اچھے مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جانے والا عبدالحمید 7 برس بعد بھی گھر سے ہزاروں میل دور رہنے پر مجبور ہے۔
’مستقبل اچھا ہو یا نہیں‘ ثمینہ (فرضی نام) اور عبدالحمید ہی نہیں بلکہ دونوں کے ایک کمسن بیٹے نے بھی اپنا ’حال‘ آزمائش کے حوالے کر رکھا ہے۔
یہ جوڑا بھی ان ہزاروں خاندانوں میں سے ایک ہے جو خوشنما زندگی کی امید میں پردیس کاٹتے ہیں۔ خون پسینہ ایک کرکے ہر ماہ ریمیٹنس بھیجتے اور ’اوورسیز پاکستانی‘ بن کر جیتے ہیں۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ اس مشکل کے نتیجے میں ملنے والی مالی آسودگی مسائل حل کر دے گی لیکن ان کے پیچھے موجود اہلخانہ خصوصاً شریک حیات الگ ہی کرب کا شکار رہتی ہیں۔
ثمینہ اور عبدالحمید چچا زاد تھے۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی عبدالحمید کو سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔
ثمینہ کے اصرار کے باجود وہ نہ رُکا اور رشتہ داروں سے قرض لے کر سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ شروع شروع میں تو حمید کے ماں باپ اس کی کمی کو محسوس کرتے، ظاہر ہے وہ ان کا اکلوتا بیٹا جو تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ کمی ثمینہ کے لیے ایک الگ ہی درد بن گئی۔
خیبر پختونخوا کے دوردراز علاقوں میں خواتین کی زندگی کے لیے جہاں بہت سارے چیلنجز موجود ہوتے ہیں وہیں شوہر کے بغیر زندگی گزارنا ایک ناممکن سی بات ہوتی ہے، سودا سلف لانا ہو، بوڑھے ساس سسر کو اسپتالوں میں چیک اَپ کے لیے لے جانا ہو، خاندان بھر کی مصروفیات ہوں یا بِل بھرنے کے لیے گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑے ہونا ہو، ثمینہ بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اب اس مصیبت سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔
میرا بیٹا شاید اپنے باپ کو پہچان ہی نہ سکے
عبدالحمید اور ثمینہ کی گفتگو اب اکثر یوں ہوتی ہے کہ ’آئندہ ماہ کی ٹکٹ کروا رہا ہوں۔‘
’نہیں اقامہ کا مسئلہ بن گیا ہے، اس ماہ نہیں آسکتا ، اب سوچ رہا ہوں کہ عید کے قریب آؤں تاکہ عید پاکستان میں ہی گزرے۔‘
کبھی یہ مباحثہ ہوتا ہے کہ ’عید پر ٹکٹ بہت مہنگی ہوتی ہے، سوچ رہا ہوں عید کے بعد آؤں تاکہ کچھ رقم بچ سکے ورنہ واپسی کے ٹکٹ کے لیے پھر قرضہ لینا پڑے گا۔‘
ثمینہ کے مطابق گزشتہ 7 سالوں سے فون پر وہ یہ جملے سنتی آرہی ہیں، شروع شروع میں تو وہ اپنے شوہر سے لڑتی جھگڑتی اور کبھی کبھی تو نوبت یہاں تک آجاتی کہ وہ گھر چھوڑ دینے تک کی دھمکی دے دیتی اور کئی کئی دن پھر فون کا جواب ہی نہ دیتی۔
پہلا سال گزرا، لیکن اس کا شوہر جو ہر 6 ماہ بعد لوٹنے کے وعدے کے ساتھ پردیس گیا تھا واپس نہیں آیا اور پھر تو جیسے یہ معمول بن گیا۔ وہ ایک ہی سوال پوچھتی اور اس کو وہی جواب ملتا لیکن سوال بدلا نا جواب تبدیل ہوا۔
گزرتا وقت نئی مشکلات ساتھ لے آیا۔ باپ کے پردیس جانے کے بعد ماں کی کوکھ میں موجود بیٹا پیدا ہوا، بچہ پیدائش کے بعد واکرز پر گیا، پھر چلنا اور دوڑنا شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ 7 برس کا ہو گیا۔
کمسن معصوم روز اپنے باپ سے ویڈیو کال پر بات تو کرتا لیکن وہ انس کبھی پیدا نا ہو سکا جو باپ بیٹے کے درمیان ہوتا ہے۔ ثمینہ کے مطابق میرے بیٹے نے اپنے باپ کو صرف تصویر میں دیکھا ہے۔ امکان ہے کہ والد اچانک سامنے آ جائیں تو وہ ان کو پہچان ہی نہیں پائے گا۔
شوہر اور ساتھی کی کمی کو کون پورا کرے گا؟
ثمینہ کے مطابق وہ اپنے بیٹے کے لیے ماں بھی ہے اور باپ بھی ، یہی وجہ تھی کہ اسکول کا پہلا دن ہو یا محلے کے قاری صاحب! نے اس کی کوئی شکایت لگانی ہو۔ ثمینہ ہر کام میں اپنے گھر کے مرد کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
بیٹے کے لیے باپ کی کمی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ساس سسر کے لیے بھی بیٹے کی کمی کو پورا کرتی ہیں، مگر یہ احساس مسلسل اپنی جگہ موجود رہتا ہے کہ ان کے لیے شوہر اور ساتھی کی کمی کو کون پورا کرے گا؟
یہ سوال ثمینہ اور اس جیسی ہزاروں عورتوں کے دماغ میں گونجتا رہتا ہے جن کے شوہر شادی کے چند مہینوں بعد اپنے بال بچوں کو روشن مستقبل دینے کے لیے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور ثمینہ جیسی عورتیں ہر دن ان کے انتظار میں گزارتی ہیں۔
ثمینہ کے مطابق جب سے ان کے شوہر بیرون ملک گئے ہیں ان کے دل میں ایک انجانا سا خوف پیدا ہوگیا ہے کہ کیا وہ کبھی اپنے شوہر سے دوبارہ مل سکیں گی؟ کیا ان کا بیٹا کبھی اپنے باپ کے لمس کو محسوس کر سکے گا؟
وہاں دوسری شادی کرلی ہوگی
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ثمینہ کا کہنا تھا کہ وہ اکثر اپنے رشتہ داروں سے یہ سنتی ہیں کہ ان کے شوہر7 سال سے اس لیے وطن واپس نہیں آئے کیوں کہ انہوں نے وہاں دوسری شادی کرلی ہوگی۔
لیکن میں یہ کیسے مان لوں؟ وہ ایک ایسے کمرے میں رہتے ہیں جہاں 10 افراد ایک ہی چھت کے نیچے گزارا کرتے ہیں اور ماہانہ پاکستانی 80 ہزار روپے کماتے ہیں ایسے میں وہ پردیس میں دوسری عورت کا خرچہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟
مجھے ڈپریشن ہے لیکن میں کسی کو بتا نہیں سکتی
ثمینہ کا کہنا تھا کہ وہ شادی سے قبل ایک بہت زندہ دل خاتون تھیں لیکن جب سے ان کے شوہر پردیس گئے، ان کا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ کبھی کبھی تو صبح بستر سے اٹھنا ہی ’کے ٹو‘ سر کرنے کے برابر لگتا ہے۔
ثمینہ جانتی ہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں لیکن وہ کسی کو بتا نہیں سکتیں۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنی ساس سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ مجھے کوئی ذہنی مسئلہ ہے، میں خوش نہیں ہوں ہر وقت ایک اداسی رہتی ہے، جس پر ان کی ساس نے کہا کہ نظر لگ گئی ہوگی، عبدالحمید کی کمائی پر سب رشتہ داروں کی نظریں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے پورے گھر کو نظر لگ گئی ہے۔
خواتین کی مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سائیکالوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اکثریت ان خواتین کی آتی ہے جن کے شوہر یا تو بیرون ملک ہوتے ہیں یا پھر کسی دوسرے شہر جہاں سے ہر مہینے آنا ممکن نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر شاہدہ کے مطابق وہ خواتین جن کے شوہر بیرون ملک ہوں یا کام کی وجہ سے وہ خود اپنے شوہروں سے دور ہوں، انہیں بہت سے نفسیاتی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں تنہائی، اضطراب اور تناؤ کے احساسات شامل ہوسکتے ہیں۔ اگررابطے کی کمی ہو یا علیحدگی طویل ہو جائے تو یہ چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔
نفسیاتی چیلینجز کیا ہوسکتے ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جائے؟
کلینکل سائیکا لوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا تھا کہ ایسی خواتین عدم تحفظ، گھریلو ذمہ داریوں کو سنبھالنے اور تنہا فیصلے کرنے کی وجہ سے اضافی تناؤ کا شکار ہوسکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے میاں بیوی کے تعلقات میں ایک غیر یقینی سی پیدا ہوسکتی ہے۔
’اس کے علاوہ خواتین کی اپنی انفرادی شناخت اور خود اعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھریلو معاملات اور بچوں کی تربیت کرنے میں بھی دشواری ہوسکتی ہے۔‘
ڈاکٹر شاہدہ کے مطابق ان چیلنجز کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے مدد حاصل کریں اور کوشش کریں کہ اپنے شوہر کے ساتھ رابطہ اور بات چیت کا سلسلہ بہتر کریں۔