چلتے ہو تو خپلو کو چلیے!

ہفتہ 19 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس بار سکردو جانے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ خپلو  ضرور جائیں گے۔ دوستوں سے اس جگہ کے بارے میں سن ضرور رکھا تھا لیکن اس سے پہلے جتنی بار بھی سکردو جانا ہوا ’خپلو‘ کی یاترا سے محروم ہی رہا۔

’خپلو‘ ٹاؤن سکردو  سے تقریباً 100 کلو میٹر دور اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اوراسکردو سے خپلو تک کا سفر حسین نظاروں سے آراستہ ہے۔

اسکردو سے جوں ہی خپلو کا رُخ کرتے ہیں تو سب سے پہلے سرفرنگا کے کولڈ صحرا کا نظارہ آپ کا منتظر ہوتا ہے۔

سرفرنگا کا کولڈ صحرا

دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے دیو ہیکل پہاڑ اور وادیاں وہ سماں باندھتے ہیں کہ اللہ کی شان۔ کوئی 40 منٹ کی ڈرائیو کے بعد آپ چھمدو پل پہنچتے ہیں جہاں دریائے شیوک دریائے سندھ میں آکر ملتا ہے۔

وہ مقام جہاں دریائے شیوک دریائے سندھ میں گرتا ہے

 دو میل سے خپلو جانے کے لیے آپ دریائے سندھ کا ساتھ چھوڑ کر دریائے شیوک کے ساتھ سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ دریائے شیوک کا ٹھاٹھیں مارتا نیلگوں پانی سیاچن اور لداخ سے آتا ہے۔

اس دریا کے ساتھ چلتے ہوئے آپ تقریباً سوا گھنٹے میں خپلو ٹاؤن میں پہنچ جاتے ہیں۔ خپلو کی آبادی تقریباً ایک لاکھ کے قریب ہے ۔ یہاں کی تاریخ، رہن سہن، زبان اور کلچر کی جڑیں بدھ مت سے ملتی ہیں۔

خپلو پیلس جانے کا داخلی راستہ

سب سے پہلےخپلو پیلس اور خپلو فورٹ

جیسے ہی ہم خپلو ٹاؤن میں داخل ہوئے تو ڈرائیور غلام حسین بولے کہ خپلو پیلس کا دورہ کر لیا جائے کیونکہ خپلو کو جاننے کے لیے خپلو پیلس اور خپلو فورٹ کا جاننا بہت ضروری ہے ۔ اس لیے ہم نے بھی پہلا پڑاؤ خپلو پیلس میں ہی ڈالا۔

خپلو پیلس یا بگو سلطنت کی یادگار

شیر غازی آغا خان کلچرل سروسز پاکستان کے ٹیکنیکل مینجر ہیں اور اس پیلس کی بحالی کا سارا کام ان کی نگرانی میں ہوا ہے۔  ان کے مطابق’ یہ پیلس 1842 میں راجہ حاتم علی خان نے تعمیر کروایا‘۔  یعنی اس کی تعمیر کو تقریباً 180 سال ہو چکے ہیں۔

اس سے پہلے یہ پیلس ایک پہاڑ کے اوپر واقع تھا، جسے تھورسی کھر کہتے تھے۔ لیکن جب کشمیری ڈوگروں نے یہاں قبضہ کیا تو انہوں نے حکم دیا کہ اس علاقے میں اونچائی پر جتنے بھی پیلس اور فورٹ واقع ہیں ان کو نیچے لایا جائے۔

دفاعی نقطہ نظر سے خپلو فورٹ اس پیلس  سے تقریباً 3 سے 4 کلومیٹر مسافت کی اونچائی پر واقع تھا۔ راجہ علمدار علی خان کا بچپن اس خپلو پیلس میں ہی گزرا ہے اور ان کی جگہ سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔

ان کے بقول ایوب خان کے دور تک یہاں کے راجاؤں کی بہت عزت تھی۔ ایوب خان کے دور میں راجہ علمدار کے تایا کو نشان پاکستان ملا، لیکن اس کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔

ان کا بتانا تھا کہ ان کے بچپن میں اس پیلس کی حالت بہتر تھی لیکن پھر اس کے بعد اس کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ اس کی بحالی کا کام خود کروا سکتے۔

راجہ علمدار آغا خان کا کہنا ہے کہ وہ کلچرل سروسز کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس پیلس کی بحالی کا کام کیا اور راجہ خپلو کا نام زندہ رکھا۔

خپلو پیلس میں لکڑی کا شاندار کام

خپلو پیلس کی خاص بات اس میں کیا گیا لکڑی کا شاندار کام ہے جس میں آپ کو کشمیری جھلک بھی نظر آتی ہے۔ شیر غازی کے مطابق اس پیلس میں جتنی بھی لکڑی اس وقت نظر آتی ہے اس کا تقریباً 70 فیصد حصّہ پہاڑی پر واقع خپلو فورٹ سے لایا گیا تھا۔اس لحاظ سے یہ لکڑی تقریباً ایک ہزار سال پرانی ہے۔

ان کے مطابق اس پیلس کی تعمیر کے لیے لکڑی کا کام کشمیر سے آئے کاریگروں نے سرانجام دیا تھا۔

خپلو پیلس جیسا شاندار اب نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ 2006 سے لیکر 2011 تک کی 5 سال کی وہ محنت ہے جس میں اس کی بحالی کا کام سرانجام دیا گیا۔ اس پیلس کے اندر ایک میوزیم بھی ہے جہاں اس پیلس میں رہنے والوں کے زیر استعمال اشیا رکھی گئی ہیں۔

وہ جگہ جہاں رعایا سے لگان وصول کیا جاتا تھا

خپلو میں سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھنے میں نظر نہیں آئی جتنی کہ آپ کو سکردو اور اس کر اردگرد کے تفریحی مقامات پر نظر آتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری ملاقات غیر ملکی انگریز سیاحوں کے ایک گروپ سے ہو گئی جو کہ خپلو پیلس دیکھنے آئے تھے۔

ان میں ناسا کی سابق ایروسپیس انجینیئر لیالی پیانا بھی شامل تھیں۔ ہم نے ان پوچھا، اس پیلس میں آکر کیسا لگا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس پیلس کی خوبصورتی اور اس کی بحالی کا کام دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی ہیں۔

’ اس پیلس میں لکڑی کا کام بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے اور جس طرح اس پیلس کو بحال کیا گیا ہے وہ بھی ایک معرکے سے کم نہیں ۔لیالی پیانا یہاں کے لوگوں کی سادگی اور ان کے دوستانہ روّیے کی بھی بہت معترف نظر آئیں۔

ناسا کی سابق ایروسپیس انجینیئر اور غیر ملکی سیاح لیالی پیانا

جب ہم خپلو پیلس سے باہر نکلنے لگے تو ڈرائیور غلام حسین نے پھر کہا کہ خپلو قلعہ پر جائے بغیر اس پیلس کی تعمیر میں ہونے والی محنت کو سمجھا نہیں جا سکتا اور ہمارے کہے بغیر انہوں نے گاڑی کا رخ اس فورٹ کی جانب موڑ لیا۔

کوئی 3 یا 4 کلومیٹر کے بعد ڈرائیور نے گاڑی روکی اور کہا کہ یہاں سے اب آپ پیدل اوپر فورٹ کی طرف روانہ ہو جائیں اور خود گاڑی میں ہی ہمارے انتظار  کا فیصلہ کر لیا۔

خیپلو قعلہ جانے والا دشوار راستہ جو آپ کو قلعہ تک پہنچائے گا

تقریباً 50 منٹ کی لگاتار چڑھائی چڑھنے کی بعد ہم اس جگہ پہنچ ہی گئے جہاں کبھی خپلو قلعہ ہوا کرتا تھا۔

خپلو قلعہ کی بلندی سے خپلو ٹاؤن کا انتہائی خوبصورت نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہاں ہی سے نیچے خپلو پیلس بھی نظر آتا ہے۔

سرگودھا کے استاد مانا نے جلّی حروف میں اپنا نام لکھا جیسے اسی نے اس قلعہ کو فتح کیا ہو

ایک مزے کی بات یہ ہے کہ سرگودھا سے استاد مانا بھی یہاں تشریف لا چکے  ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ استاد مانا کون ہیں؟ اور مجھے کیسے پتہ چلا کہ وہ وہاں تشریف لا چکے ہیں؟۔ ہمیں ان کی یہاں موجودگی کا پتہ ایسے چلا کہ اس پتھر پر جہاں کبھی خپلو فورٹ کی سیکیورٹی پوسٹ ہوا کرتی تھی وہاں وہ اپنا نام جلّی حروف میں لکھ کر چلے گئے۔

ظاہری سی بات ہے اب وہ اتنی چڑھائی چڑھنے کے بعد خود کو فاتح ہی سمجھ رہے ہوں گے اس لیے اپنی عقل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے وہاں اپنا نام لکھ کر چلے گئے ہیں جیسا کہ کشمیری ڈوگروں کے بعد انہوں نے ہی اسے فتح کیا ہو!۔ ایسا لگتا تھا کہ خپلو فورٹ کی چوکی پر سرگودھا سے استاد مانا بھی فاتح بن کر یہاں پہنچے

اس کے ساتھ ہی ہمیں وہاں شاعری کا تڑکا بھی ملا جو کسی دل ٹوٹے نے اپنے محبوب کی یاد میں وہاں بنے ریسٹ ایریا میں لکھ رکھا تھا۔

 یہاں سے واپسی پر جب ہم نے غلام حسین سے سیاحوں کے عمومی روّیے سے متعلق بات کی تو اندازہ ہوا کہ سیاحوں کے آنے سے مقامی لوگ خوش تو ہیں لیکن تھوڑے مایوس بھی ہیں کہ باہر سے آنے والے لوگ ان کے کلچر اور روایات کو اس طرح اہمیت نہیں دیتے جیسے وہ چاہتے ہیں۔ ان کی شکایت تھی کہ یہ لوگ بعض اوقات ایسی حرکتیں بھی کرتے ہیں جو مقامی لوگوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔

 خپلو دیکھنے کے لائق جگہ ہے۔ ملنسار لوگ، قدرت کے نطارے، تاریخ کے جھروکے اور نجانے کیا کیا۔ ہمیں خپلو میں خانقاہ معلٰی اور چیچقن مسجد بھی جانے کا موقع ملا، ان دونوں جگہوں کے بارے معلومات کسی اور تحریر میں پیش کروں گا۔ آپ جب بھی سکرود جائیں تو خپلو ضرور جائیں یقین مانیں آپ مایوس نہیں ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp