بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

اتوار 20 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، آئے روز ایسی کوئی نا کوئی خبر نظر سے گزرتی ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر بچوں کے حوالے سے قوانین ہونے کے باوجود کیسز کی شرح میں اضافہ سوالیہ نشان ہے۔

صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے ساڑھے 5 ماہ کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کے 1390 واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں 69 فیصد لڑکے اور 31 فی صد لڑکیاں ہیں۔

زینب ریپ کیس کے بعد سے پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات بہت زیادہ رپورٹ ہونے لگے ہیں۔ آئے روز کوئی نا کوئی ایسا کیس سامنے آتا ہے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبر ہوتی ہے۔ اور یہ خبریں بھی صرف خبر نامے کی زینت تک محدود رہتی ہیں۔

اگر ملزم پکڑا بھی جائے تو اس کے خلاف معمولی کارروائی ہوتی ہے اور پھر اسے آزاد کر کے معاملے کو بھلا دیا جاتا ہے۔ اب تو ایسے واقعات اس قدر بڑھنے لگے ہیں کہ روٹین کی خبر سے زیادہ نہیں لگتے۔

8 سال کی عمر میں جنسی زیادتی کا شکار بننے والی خاتون کی کہانی

نیحا احمد (فرضی نام) 23 برس کی ہیں، جنہوں نے پبلک پالیسی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اور وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں، انہوں نے اپنی زندگی کے سیاہ لمحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ 8 سال کی عمر میں ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

کہتی ہیں جس شخص نے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ان کے خاندان کے ہی ایک بزرگ تھے جو رشتے میں دادا یا نانا لگتے تھے، ان کی عمر تقریباً 55 برس تھی، اور وہ لندن سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔

تفصیلات بتاتے ہوئے نیحا نے کہاکہ انہی دنوں ہمارے ایک رشتہ دار انتقال کر گئے تھے جس کی وجہ سے میری والدہ نے مجھے ان (رشتے دار بزرگ) کے پاس چھوڑا اور وہ خود اس گھر میں چلی گئیں جہاں پر کسی شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔

’ہم کافی دنوں سے گاؤں میں ہی تھے، وہ بزرگ مجھے کبھی گود میں بٹھاتے، کبھی پیار کرتے، مگر مجھے ان کی نیت کے حوالے سے علم نہیں ہوا کیوں کہ میں بہت چھوٹی تھی۔ اُس روز جب میری والدہ سمیت سب گھر سے چلے گئے اور میں گھر پر اکیلی تھی تو مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں اسلام آباد پولیس کی کارروائی، بچیوں سے زیادتی میں ملوث 2 ملزمان گرفتار

خاتون نے بتایا کہ جب انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تو وہ بہت تکلیف میں تھیں، کم عمری کی وجہ سے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے، مگر ذہن میں ایک بات ضرور آ رہی تھی کہ جو ہوا ہے غلط ہی ہوا ہے۔ نیحا گھبراہٹ کے عالم میں گھر کے قریب ہی کسی کزن کے پاس گئی تو اس کے پوچھنے پر بتایا کہ میں گر گئی ہوں جس کی وجہ سے میری یہ حالت ہوئی ہے۔

نیحا کہتی ہیں کہ زیادتی کا نشانہ بنانے والے شخص نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی کو بتایا تو جان سے مار دوں گا۔ ان کے مطابق اُس واقعے کے بعد بھی وہ شخص جب پاکستان آتا تو انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتا، اور اس کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔

نیحا نے مزید کہا کہ جب میں تقریباً 13 سال کی تھی تو میرے ساتھ زیادتی کرنے والے شخص کا انتقال ہو گیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا، کیوں کہ میں اسے اتنے آرام سے مرتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی، میں نے سوچا تھا کہ بری ہو کر انہیں قانونی طور پر چیلنج کروں گی، میں اپنے ہاتھوں سے انہیں اذیت دے کر مارنا چاہتی تھی۔

’میری زندگی کے اس سیاہ واقعے نے میری زندگی کو جہنم بنا دیا، مجھے ہر مرد سے نفرت ہے، چاہے پھر وہ کوئی بھی مرد ہو، میری زندگی سے اعتماد تک چھین لیا گیا، میرا تو کوئی قصور نہیں تھا، مگر میں مرد ذات پر کبھی بھی یقین نہیں کر سکتی، یہی وجہ ہے کہ میرے دوست بھی زیادہ نہیں ہیں، اور میرے وہی دوست ہیں جن کے ساتھ بھی بچپن میں وہی ہوا جو میرے ساتھ ہوا، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے مجھے بتایا مگر مجھے ان کی باتوں سے اندازہ ہوجاتا ہے‘۔

روزانہ 7 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، این جی او کی رپورٹ

خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق روز انہ کی بنیاد پر تقریباً 7 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بچوں کا ریپ اور جنسی تشدد ایک ایسا خطرہ بنتا جا رہا ہے جو معاشرے کے ہر بچے کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ جس تلوار کا خوف چاروں طرف منڈلا رہا ہے اور آئے دن ایسے دلخراش واقعات کی خبریں آتی ہیں۔

زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی شخصیت پر برا اثر پڑتا ہے، سحرش افتخار

سائیکالوجیکل ہیلتھ کیئر سینٹر کی کنسلٹنٹ، کلینیکل سائیکالوجسٹ سحرش افتخار کہتی ہیں کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ایسے بچوں کا اعتماد بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ انہیں کسی بھی رشتے پر اتنی جلدی یقین نہیں ہوتا، وہ ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے بہن بھائیوں اور والدین پر بھی یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور خاص طور پر بھائی اور باپ پر، کیونکہ ان کی نفسیات اتنی بُری طرح متاثر ہوتی ہے کہ یہ مرد ذات سے گھبرانے لگتے ہیں۔

مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایسے بچوں کو پوری زندگی رشتوں میں مسائل رہتے ہیں۔ ان کی شادی شدہ زندگی متاثر ہوتی ہے کیونکہ بچپن کی محرومیوں اور زیادتیوں کا اثر پوری زندگی بچے پر رہتا ہے۔

بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے افراد کے حوالے سے سہرش نے بتایا کہ ان کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود بچپن میں اس طرح کی زیادتی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں، ان افراد پر اب تک جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں اس کے مطابق زیادہ تر لوگ وہی ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ایف نائن پارک زیادتی کیس : اسلام آباد پولیس کا ملزمان کو ہلاک کرنےکا دعویٰ

انہوں نے کہاکہ چونکہ ایسے لوگ بچپن میں بے بس ہوتے ہیں تو پھر اس عمر میں وہ اپنی ذات کو تسکین پہنچانے کے لیے وہی سب دوسرے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان میں بھی 2 طرح کے افراد ہوتے ہیں۔ کچھ زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد اس تکلیف کو سمجھتے ہیں اور پوری زندگی کسی دوسرے کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ جو میرے ساتھ ہوا یا جس تکلیف سے میں گزرا ہوں باقی بھی اس تکلیف کو محسوس کریں اور وہ یہ سب کرنے لگتے ہیں، دراصل وہ بدلا لے رہے ہوتے ہیں۔

والدین کی کونسلنگ بچوں سے زیادہ ضروری ہے، مہوش نیاز

یوتھ سوک ایجوکیشن پر کام کرنے والی این جی او لیوریٹ فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہوش نیاز کہتی ہیں کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں اس میں ایک بڑی چیز ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال ہے اور اب تو ’ٹین ایج‘ کے بچوں کی جانب سے بھی چھوٹے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہوتا ہے، دوسری بڑی وجہ والدین کی جانب سے بچوں کو نظرانداز کرنا ہے، مطلب یہ کے زیادہ تر کیسز میں آپ کے بچے کو وہی لوگ ٹارگٹ کرتے ہیں جو لوگ روز کی بنیاد پر ان کو دیکھتے ہیں یا پھر جن سے تھوڑی بہت بات چیت بھی ہونے لگے، جیسے محلے میں لوگ ہوتے ہیں تو والدین ان کو اتنا ایجوکیٹ ہی نہیں کرتے کہ کسی اجنبی سے بات چیت نہیں کرنی، ہر کسی کی گود میں نہیں بیٹھنا، کسی کو خود کو چھونے نہیں دینا اور کسی سے کوئی چیز نہیں لینی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مع اشرے میں فیزیکل ٹچ اتنا زیادہ معمولی ہو چکا ہے اگر کوئی پیار کر رہا ہے تو ہمارے لیے وہ بالکل معمولی ہوتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات والدین خود بھی نہیں پہچان پاتے، اور اگر کبھی کوئی بچہ شکایت بھی کرتا ہے تو اکثر اس بات کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جاتا، اور اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اب والدین کی کونسلنگ بچوں سے زیادہ ضروری ہے۔

مہوش نیاز نے کہاکہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، آجکل سیکس ایجوکیشن کے نام پر بہت چیزیں خراب ہورہی ہیں، کیونکہ اچھے اور برے ’فزیکل ٹچ‘ میں فرق ہوتا ہے، اس کے علاوہ ایسی مہم چلانی چاہیے جس سے بچوں اور والدین کی کونسلنگ ہو، اور ان مہم کو بار بار چلایا جائے تاکہ جتنا جلدی ہو سکے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔

عدالت میں کیس کرنے کے لیے ثبوت ضروری ہیں، شرافت علی

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ماضی میں کمسن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی کہتے ہیں کہ جہاں تک جوانی میں آکر اس شخص کو (جس نے آپ کو زیادتی کا نشانہ بنایا) قانونی طور پر چیلنچ کرنے کی بات ہے تو ایسا ممکن تو ہے کیونکہ صوبائی اور وفاقی سطح پر بچوں کے حوالے سے بہت سے قانون موجود ہیں، مگر جب آپ کسی شخص کو عدالت میں چلینج کرنا چاہیں گے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس کوئی نہ کوئی ثبوت ضرور موجود ہونا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ کیسز کم ہوئے ہیں یا زیادہ اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے، کیوں کے مجھے لگتا ہے کہ کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کیونکہ جس طرح پچھلے کچھ عرصے سے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف مہمز چلائی گئیں ہیں، اس کے بعد سے لوگ واقعات کو درج کروانا شروع ہوگئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp