ہمارے سینیٹرعرفان صدیقی شہری آزادیوں کا پرچم تھامے کھڑے ہیں، تاریخ کے اس اہم مرحلے پر لازم ہے کہ تمام روشن ضمیر جمہوریت پسند بغیر کسی ذہنی دباؤ ان کا ساتھ دیں۔
دُنیا عرفان صدیقی کو ادبیات کے استاد کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن ان سطور کے لکھنے والے کا تعارف ذرا مختلف ہے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزے سے وابستہ ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عرفان صدیقی کی تحریریں بھی آنی شروع ہو گئیں۔
شہید محمد صلاح الدین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز حتیٰ کہ اپرنٹس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی بھی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔
عرفان صدیقی کی تحریریں جس زمانے میں آنی شروع ہوئیں، شاید محمد صلاح الدین سمیت کوئی بھی انہیں نہیں جانتا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ان کی کوئی تحریر پڑھ کر مرحوم ( صلاح الدین) نے کہا کہ یہ شخص تو بہت بڑا ’لکھاڑ‘ ہے۔
گویا یہ تعریف ویسی نہ تھی جیسی وہ ہم جیسے لوگوں کی کیا کرتے تھے بلکہ یہ ایک ایسے شخص کے لیے خراج تحسین تھا جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
کچھ عرصے کے بعد باقاعدہ سے عرفان صدیقی کی خدمات حاصل کر لی گئیں اور یوں ہم نو آموز ہونے کے باوجود ان کے ساتھی بن گئے۔ اتنی تفصیل بیان کرنے کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا تعلق اس پرچم سے ہے جس کی وجہ سے اس تذکرے کا آغاز ہوا ہے۔
عرفان صدیقی اس زمانے میں ہفت روزے کے لیے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بے شمار اہم شخصیات کے انٹرویو کیے اور انہیں اپنا گرویدہ بنایا۔
بلوچستان میں میاں نواز شریف کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک حاجی احمد علی کھوسہ مرحوم گرفتار ہوئے تو میں برادرم یامین عباسی کے ساتھ صحبت پور میں ان کے گھر گیا جہاں مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملاقات ہو گئی۔
میں نے ان سے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو فرمانے لگے کہ بھئی! ہم تو عرفان صدیقی کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لوگوں کے دل میں گھر کر لینے والی بات تو اپنی جگہ اہم ہے، صحافیوں کے لیے اس میں بھی سبق ہے لیکن یہاں مجھے عرفان صدیقی کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا ہے۔
ہر ہفتے جب ان کی تحریر موصول ہوتی تو ہم سب بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں وہ فونٹین پین سے لکھا کرتے تھے یعنی پکی روشنائی کے ساتھ، پوری تحریر کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح چمک دار تو ہوتا ہی تھا، سرخی وہ اس مہارت اور خوش خطی سے لکھتے گویا کسی خطاط نے بڑی مہارت سے خطاطی کی ہو۔
شروع میں تو ہم ان کی خطاطی اور تحریر کی خوب صورتی کے ہی اسیر ہوئے لیکن رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ یوں جما کر لکھی ہوئی تحریر اسی صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے کا ہوم ورک بھرپور ہو۔
یوں ہم نے یہ سیکھا کہ اگر اس پیشے میں کمال حاصل کرنا ہے اور کچھ نام پیدا کرنا ہے تو اس کی کنجی یہی ہے۔
انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ خواہ عمر کے جس حصّے میں بھی ہو، سیکھنے کی حس ہمیشہ بیدار اور توانا رہے۔ عرفان صدیقی اس وقت عمر کے جس حصّے میں بھی ہیں، ہمارے اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے ہیں اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان میں سیکھنے کا جذبہ اور صلاحیت آج بھی نوعمروں سے بڑھ کر ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں وہ عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوئے اور عدالتی کشا کش سے گزرے تو ان پر یہ راز کھلا کہ گو پاکستان کا آئین عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر آج بھی مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔
یہ تجربہ خود ان کی جان پر بیتا، وہ اس تلخ تجربے سے گزرے تو ہماری طرح خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ جب وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تو اس آئین شکنی کے خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے۔
بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو کسی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد اصلاح احوال پر محض اس لیے کمربستہ ہو جائے کہ مستقبل میں اللہ کے دیگر بندے اس نا انصافی سے محفوظ رہیں۔
یہاں اس مرحلے پر ان کی وہی صحافت والی تربیت کام آئی اور انھوں نے خوب ہوم ورک کے ساتھ سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا آئینی تصّور حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔
عرفان صدیقی نے یہ کام اتنی محنت اور عرق ریزی سے کیا کہ ایوان بالا میں حزبِ اختلاف کی طرف سے پیش کیے جانے والے اس بل کی کوئی بھی مخالفت نہ کر سکا بلکہ میں تو یہ جان کر بھی حیران رہ گیا کہ بل کی منظوری یقینی بنانے کے لیے ان کے کھلے مخالف اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اس میں تعاون کیا اور قومی اسمبلی نے بھی بل مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ اس کے بعد غضب ہو گیا۔
طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایوان جب کوئی قانون سازی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد پارلیمنٹ سیکریٹریٹ اس بل کو سیدھا ایوان صدر کو ارسال کر دیتا ہے تاکہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے۔
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل یہاں ہی سے ایوان صدر ارسال کر دیا گیا جس کی اطلاع عرفان صدیقی کو بھی باضابطہ طور پر مل گئی۔ آج 14 مہینے ہو گئے ہیں، نہیں معلوم کہ یہ بل کہاں گیا؟۔
ایوان صدر کہتا ہے کہ یہ بل ان تک نہیں پہنچا جب کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسے ارسال کر چکا ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے کہ آخر انتہائی اہمیت کا حامل یہ بل کہاں گیا؟۔
عرفان صدیقی بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں انسان لا پتہ ہواکرتے تھے، اب قانون بھی لاپتہ ہونے لگے ہیں۔ عرفان صدیقی نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھا ہے کہ یہ بل آپ کے دفتر سے نکلا اور لاپتہ ہو گیا براہ کرم اسے بازیاب کر کے ایوان صدر ارسال کریں تاکہ پراسس مکمل ہو سکے۔
عرفان صدیقی بل کی بازیابی کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے رہے ہیں، ان کی آواز میں ہر باضمیر پاکستانی کو آواز ملانی چاہییے۔ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی محاذ آرائی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بحالی کا قانون ہے۔
آج ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو کل ہم عوام میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی تو ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔