فاطمہ تشدد کیس میں ملزم پیر اسد کون ہیں؟

پیر 21 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ دنوں خیرپور کی 10 فاطمہ پر ہونے والے مظالم کی کہانی ہر جگہ نظر آئی۔ اس معصوم بچی نے بھی آنکھوں میں ناجانے کتنے سپنے سجائے ہوں گے مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیسا ظلم ہونے والا ہے۔

مبینہ طور پر فاطمہ کی ہلاکت کی ذمہ داری پیر اسد پر ڈالی جارہی ہے اور اس کیس سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک فاطمہ کی کہانی نہیں ناجانے کتنی ان گنت بچیاں اسی طرح روز اس ظلم و بربریت کا سامنا کر رہی ہیں۔

پیر اسد کا سیاسی اثر و رسوخ

پیر اسد کے خاندان کو خیرپور میں پیر صاحب پگارہ کے برابر سمجھا جاتا ہے اور کچھ مقامی لوگوں کے مطابق گدی نشینی کی بات کی جائے تو ان دونوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہے۔ پیر صاحب پگارا کا تعلق فنکشنل لیگ سے ہے جبکہ پیر اسد کا تعق پاکستان پیپلز پارٹی سے، اور شاید یہی وجہ تھی کہ تحقیقات سے پہلے ہی پولیس نے یہ بیان جاری کردیا کہ یہ واقعہ تشدد کا نہیں ہے۔ مگر پھر فاطمہ کی والدہ کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان سے زبردستی بیان لیا گیا ہے اور اسی بیان کے نتیجے میں 3 پولیس افسران کو معطل کردیا گیا۔

پیر اسد کی حویلی

پیر اسد کی حویلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی حویلی کے کئی حصے ہیں اور ہر حصے میں الگ الگ بھائی رہتے ہیں۔ رانی پور کے اس علاقے میں پیری مریدی کا سلسلہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے اور مرید اپنی خوشی سے گھر کے کام کاج کے سلسلے میں کم عمر بچیاں پیروں کے حوالے کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس سے انہیں خوشی ملتی ہے اور وہ یہ کام خدمت میں اپنا حصہ ڈالنے کی غرض سے بھی کرتے ہیں۔

اسد شاہ کی حویلی میں اب بھی خواتین و بچے کام کر رہے ہیں جن میں 3 خواتین ملازماؤں اور 4 بچوں کو تحویل میں لیا گیا ہے۔ ان خواتین کے مطابق پیر اسد شاہ کو پھنسایا جا رہا ہے اور حویلی میں تشدد نہیں ہوتا جبکہ ایک لڑکی کا بیان سامنے آیا ہے کہ پیر اسد کو تشدد کرتے نہیں دیکھا جبکہ حنا شاہ لڑکیوں پر تشدد کیا کرتی تھیں۔

عدالت میں زیرِ حراست ملازماؤں کا کیا کہنا تھا؟

حویلی سے تحویل میں لی گئی 3 خواتین ملازمائیں اور ان کے 4 بچوں کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ خواتین ملازماؤں نے عدالت کو بتایا کہ وہ گزشتہ کئی برس سے ملازمت کر رہے ہیں مگر کل پولیس نے اچانک انہیں حویلی سے نکال کر دوسرے مقام پر منتقل کر دیا تھا۔

عدالت نے جب پوچھا کہ کیا آپ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھروں میں واپس جانا چاہتی ہیں، جس پر ان کا جواب تھا کہ ہم سب اپنے اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں۔

فاطمہ کی والدہ نے عدالت میں کیا کہا؟

سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں کمسن فاطمہ کے والدین بھی پیش ہوئے جبکہ پولیس نے کمسن ملازمہ کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرائی۔

فاطمہ کی ماں نے عدالت سے استدعا کی کہ بچی کی لاش حویلی سے گھر لانے والے 2 مرد اور ایک خاتون ملازمہ کو بھی گرفتار کرکے تفتیش کا دائرہ بڑھایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 3 افراد ہمارے رشتے دار ہیں اور شفاف تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ ان سے بھی تفتیش کی جائے۔

پولیس کی جانب سے فاطمہ کا پوسٹ مارٹم کراویا جاچکا ہے جس کے تحت تشدد کے نشانات جسم پر موجود ہیں جبکہ کچھ رپورٹس ابھی آنا باقی ہیں۔

فاطمہ کے والدین کہتے ہیں کہ پیر اسد شاہ کی حویلی میں بچی فاطمہ کا قتل ظلم ہے، ہمیں بچی کے قتل کا انصاف کھپے، انصاف کھپے، سرِعام انصاف کھپے کیونکہ ہماری بچی کو بے دردی سے مارا گیا ہے۔

’پورا سندھ ہمارا ساتھ دے رہا ہے، ہم انصاف لے کر رہیں گے، کئی وکلا گھر تعزیت کرنے آئے اور مفت مقدمہ لڑنے کا یقین دلایا جس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp