چلیے مان لیا صدرِ مملکت نے 2 اہم قانونی مسودوں کی بابت جو صفائی دی ہے وہ بدانتظامی سے زیادہ خود ان کی صلاحیت و کارکردگی و منصبی اہلیت سے متعلق سوال اٹھا رہی ہے۔ مگر مملکتِ خداداد میں ایسے معجزات و کرامات و وارداتیں ہوتی ہی رہتی ہیں ۔ان کے بارے میں پکی پکی شہادتیں بھی ہوں تب بھی کس میں ہمت ہے کہ بازپرس تو دور کی بات انگشت نمائی ہی کر کے دکھا دے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو چونکہ وزیرِ اعظم بننے سے قبل رموزِ مملکت کا اچھا خاصا تجربہ تھا۔ لہذا وہ احتیاطاً 3 آنکھیں استعمال کرتے تھے۔ 2 آگے اور ایک سر کے پیچھے۔
ڈاکٹر مبشر حسن کے بقول بھٹو صاحب جب بھی کسی اہم معاملے پر اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کرنا چاہتے تو عموماً وزیرِ اعظم ہاؤس کے لان میں بیٹھ کے یا ٹہل کے کیا کرتے تھے۔ بیڈ رومز اور کانفرنس رومز کی ماہانہ ڈی بگنگ ہوتی تھی اور اکثر فون کے ماؤتھ پیس یا لیمپ یا گلدان میں سے کوئی نہ کوئی سن گن والا ننھا منا پرزہ نکل آتا تھا۔
پھر بھی کوئی احتیاط بھٹو کو نہ بچا پائی۔ کہنے کو تمام حساس و غیر حساس ادارے انہیں جوابدہ تھے اور ان کا شمار کم ازکم ابتدائی 3 برس طاقت ور اور بااختیار ریاستی و حکومتی سربراہ کے طور پر بھی ہوتا تھا۔
سنہ 1999 میں کارگل کی لڑائی کیا وزیرِ اعظم نواز شریف کی تائید سے شروع ہوئی؟ جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ اس بابت وزیرِ اعظم کو باقاعدہ بریفنگ دی گئی۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ مجھ سے نہیں پوچھا گیا۔ اٹل بہاری واجپائی کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کہتے ہیں کہ واجپائی نے نواز شریف کو فون کر کے کہا کہ ہم تو معاملہ سلجھانے لاہور گئے تھے۔ یہ پیٹھ پیچھے آپ نے کیا کر ڈالا؟ بقول برجیش مشرا نواز شریف کا لہجہ بتا رہا تھا کہ انہیں محاذ کے حالات کے بارے میں کچھ علم نہیں۔
جب معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو عسکری قیادت نے صدر کلنٹن کو بیچ میں ڈالنے کے لیے وزیرِ اعظم کو واشنگٹن بھیجا اور پرویز مشرف نے خود ایئرپورٹ پر نواز شریف کو رخصت کیا۔ جب بحران ٹل گیا اور نواز شریف برطرف ہو گئے تو مشرف کا موقف تھا کہ وزیرِ اعظم اپنی مرضی سے واشنگٹن گئے۔ ان کی ہمت جواب دے گئی۔ ہم نے تو بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا۔
8نومبر 2021 کو قومی اسمبلی نے جبری طور پر لاپتا کیے جانے والے افراد کی بازیابی اور ذمہ داروں کی سزا سے متعلق فوجداری قانون کا ترمیمی بل منظور کر لیا۔ اس کے بعد یہ بل سینیٹ میں منظور ہونے کے لیے پیش ہونا تھا مگر جنوری 2022 میں انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے انکشاف کیا کہ یہ بل سینیٹ سیکرٹیریٹ کو موصول نہیں ہو سکا۔
اپریل میں پی ٹی آئی کی حکومت چلی گئی۔ شہباز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔ جون 2022 میں انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ترمیمی بل اب تک لاپتا ہے ۔ اس دوران سابق وزیرِ انسانی حقوق شیری مزاری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے دفتر میں اس بل کی کچھ شقیں پراسرار انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی۔ ایسا نہ ہو سکا تو یہ سینیٹ سیکرٹیریٹ کو ارسال ہونے کے عمل میں راستے سے غائب ہو گیا۔
ستمبر 2022 میں بالآخر یہ بل مل گیا۔ بحث کے دوران اس بل میں سے ایک متنازعہ شق نکال دی گئی جس کے تحت جبری گمشدگی کا جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی 5 برس قید ہو سکتی تھی۔
مارچ 2021 میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے روز ووٹنگ کے دوران سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور رضا ربانی نے پولنگ بوتھ کے اوپر لگا خفیہ کیمرہ پکڑا۔ کس نے نصب کیا؟ سینیٹ کے انتظامی عملے نے کہا ہمیں کیا معلوم۔ ایک وزیر شبلی فراز نے کہا کہ یہ تو اپوزیشن نے لگائے ہیں۔ ایک اور وزیر فواد چوہدری نے کہا یہ تو معمول کا سییکورٹی کیمرہ ہے۔ اس میں نیا کیا ہے۔
ستمبر 2022 میں وزیرِ اعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس ڈارک ویب پر برائے فروخت پیش کی گئیں۔ اس سے پہلے عمران خان اور ان کے قریبی رفقا کی گفتگو سوشل میڈیا پر ریلیز ہوئی۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سمیت سب جماعتوں نے شور مچایا کہ کس نے کیا، پکڑو، جانے نہ پائے۔ اور پھر یہ مطالبہ کسی بھی حلقے کی جانب سے نہیں دہرایا گیا۔
دفترِ خارجہ کا خفیہ سائفر امریکی نیوز ویب سائٹ دی انٹر سیپٹ پر لیک ہو گیا۔ سب یہی پوچھ رہے ہیں کہ یہ کس نے لیک کیا۔ کوئی نہیں پوچھ رہا کہ اس میں جو درج ہے وہ کتنا سچ ہے؟
پچھلے 5 برس میں بہت بار ایسا ہوا کہ کسی سیاستدان کا الیکٹرونک میڈیا پر نام لینے یا شکل دکھانے یا لائیو کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں سے اکثر پابندیاں محض فون پر احکامات دے کر نافذ کی جاتی ہیں۔ جبکہ پیمرا کی جانب سے کسی بھی پابندی کی باقاعدہ تحریری ہدایت یا نوٹیفکیشن موصول ہوتا ہے۔
جب پیمرا سے پوچھا جائے کہ کیا آپ نے کسی سیاستدان کے چلتے انٹرویو کو آف ایئر کیا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔ ہم نے تو کیبل آپریٹرز کو ایسی کوئی ہدایت نہیں کی۔ کیبل آپریٹرز سے پوچھا جائے کہ آپ کو کہاں سے احکامات آتے ہیں تو وہ ہنسنے لگتے ہیں۔
سابق حکومت کے آخری دنوں میں وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ سے پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کا میڈیا پر نام لینے اور ان کی تصویر دکھانے پر پابندی آپ نے لگائی ہے۔ رانا صاحب نے کہا کہ مجھے ایسی کسی پابندی کا علم نہیں۔
لہذا ایوانِ صدر میں آیا ہوا بل بلا دستخط واپس ہوا یا نہیں؟ کس نے کس کی حکم عدولی کی؟ کس نے کس کے حکم پر یہ بل روک کے رکھا؟ کون کس کو دراصل جوابدہ ہے؟ کیا فائدہ ایسے سوالات اٹھانے کا۔
یہ حرکتیں پہلے رکی ہیں جو آئندہ رکیں گی؟ کبھی معلوم ہوا کہ کس کا زور چلتا ہے اور کون سا پراسرار سایہ کہاں کہاں موجود ہے۔
ٹھنڈ رکھیے اور بقول شخصے فل انجوائز لیجیے۔
یہ ملک تو چلتا پھرتا نیٹ فلکس ہے۔