آپ کو اپنی پسندیدہ گاڑی آدھی قیمت میں کہاں سے مل سکتی ہے؟

بدھ 23 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور عام آدمی کے لیے تو گاڑی لینا اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے لیکن اگر آپ کو اپنی پسندیدہ گاڑی اصل سے آدھی سے بھی کم قیمت میں مل جائے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟

ویسے یہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ ایسی گاڑی خریدنے اور پھر اسے چلانے کے لیے آپ کو نقل مکانی کر کے ملاکنڈ ڈویژن جیسے کسی ٹیکس فری زون میں ہی رہائش اختیار کرنی ہوگی۔

ملاکنڈ ڈویژن کے علاقوں سوات، دیر، بونیر اور چکدرہ  وغیرہ میں نان کسٹم پیڈ (این سی پی) گاڑی کی اصطلاح عام ہے۔ یہ ایسی گاڑی ہوتی ہے جو پورٹ سے نہیں آتی بلکہ مختلف ممالک سے دبئی کی بڑی منڈی میں پہنچتی ہے جہاں سےیہ افغانستان لائی جاتی ہے اور پھر پاکستان پہنچا دی جاتی ہے۔ چونکہ اس سارے عمل میں کسٹمز کا عمل دخل نہیں ہوتا اس لیے یہ گاڑیاں نان کسٹم پیڈ کہلاتی ہیں اورکسٹم پیڈ گاڑیوں کے  برعکس ان کی قیمتیں آدھی یا اس سے بھی کم ہوتی ہیں۔ کسٹم ڈیوٹی کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے یہ گاڑیاں سابق فاٹا کے علاقوں، گلگت بلتستان، بلوچستان اور ملاکنڈ ڈویژن میں فروخت اور استعمال ہوتی ہیں۔

چکدرہ اور سوات خوازہ خیلہ این سی پی گاڑیوں کے بڑے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ چکدرہ میں ایک عرصے سے این سی پی گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے شیراز احمد نے گاڑیوں کی قیمتوں کا موازنہ کرتے ہوئے وی نیوز کو بتایا کہ کسٹم پیڈ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں کچھ گاڑیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی قیمتوں میں آدھے کا فرق ہوتا ہے جبکہ کچھ گاڑیوں میں آدھے سے بھی زیادہ کا فرق ہوتا ہے۔

شیراز احمد نے کہا کہ کچھ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی قیمت 25 لاکھ روپے ہوتی ہے لیکن اگر وہی گاڑی کسٹم پیڈ ہو تو پھر اس کی قیمت 90 لاکھ روپے ہوگی۔ قیمتوں میں فرق کا انحصار گاڑی اور اس کی ڈیمانڈ پر ہوتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہاں نان کسٹم پیڈ پریئس گاڑی 15 یا 16 لاکھ روپے کی ملتی ہے تو اسی کنڈیشن کی یہ کسٹم پیڈ میں 35 سے 38 لاکھ روپے کی ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو ایکوا گاڑی یہاں 12 لاکھ روپے کی ملتی ہے وہ کسٹم پیڈ میں  30 سے 31 لاکھ روپے کی پرے گی اور بڑی گاڑیوں کی قیمت میں زیادہ فرق ہوتا ہے لیکن زیادہ ڈیمانڈ والی چھوٹی گاڑیوں کی قیمتوں میں اتنا فرق نہیں ہوتا۔

ملا کنڈ ڈویژن میں داخل ہوتے ہی آپ کو این سی پی گاڑیوں کی بھرمار نظر آتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان گاڑیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ہر ضلعے میں استعمال ہونے والی گاڑیاں باقاعدہ ریکارڈ پر لائی جاتی ہیں اور ان گاڑیوں کی مخصوص نمبر پلیٹ بھی ہوتی ہے۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر افراد کا انحصار این سی پی گاڑیوں پر ہوتا ہے اس لیے یہ ہر وقت ڈیمانڈ میں رہتی ہیں جبکہ ان کی خرید و فروخت ایک منافع بخش کاروبار تصور کی جاتی ہے۔

گاڑیوں کی ڈیمانڈ کے حوالے سے شیراز احمد کا کہنا تھا کہ یہاں زیادہ مائلیج دینے والی اور آسانی سے مرمت ہوجانے والی گاڑیوں کی مانگ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے یہاں ہائی برڈ گاڑیوں کی بہت مانگ تھی لیکن اب اس میں کمی آگئی ہےکیونکہ یہ پہاڑی علاقوں میں  اتتا اچھا فیول ایوریج نہیں دیتی جتنا لوگ توقع کرتے ہیں لیکن کرولا، پریمیو اور وٹز جیسی نان ہائبرڈ گاڑیوں کی مانگ نسبتاً زیادہ رہتی ہے۔

مانگ کے علاوہ ڈالر ریٹ بھی این سی پی گاڑیوں کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں ڈالرز میں لین دین کی وجہ سےان گاڑیوں کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ عرصے میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں تقریبا دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔

سنہ 2012 میں حکومت نے ایمنیسٹی اسکیم کے تحت تقریباً 90 ہزار سے زائد این سی پی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی تھی تاہم اب دوبارہ حکومت کی جانب سے ایسی اسکیم لانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp