ضلع چکوال جہاں کئی حوالوں سے مشہور ہے وہاں اس کی تحصیل کلر کہار میں کشید کیا جانے والا گلابوں کا عرق بھی خصوصی طور دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔
سنہ 1519 میں جب مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر بھیرہ فتح کرنے آئے تو انہوں نے کلرکہار میں ایک باغ لگانے کا حکم دیا۔ یہ باغ مغلوں کی جانب سے برصغیر میں لگایا جانے والا پہلا باغ تھا اور اس کا نام بابر نے خود ’باغِ صفا‘ رکھا تھا۔ اسی باغ کے وسط میں ایک بڑے بھاری پتھر کو تراش کر مغل بادشاہ بابر کا تخت بنایاگیا تھا جس پر بیٹھ کر وہ حکومتی احکام جاری کیا کرتے تھے۔ یہ ’’ تخت بابری‘‘ آج بھی یہاں موجود ہے۔
اس باغ کو اگانے میں علاقے کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بابر سے انعام پایا۔ بابر کو باغات اور اپنے وطن سے گہری محبت تھی۔ ایک بار اُس کے سامنے کابل کے پھل پیش کیے گئے تو وطن کی یاد میں اُس کے آنسو نکل پڑے۔
ظہیرالدین بابر کے لگائے گئے باغ کے ساتھ سڑک کے اطراف میں اب جا بجا عرق ِگلاب، مربہ جات اور دیگر اشیا کی دکانیں ہیں۔ یہیں پر مغل شہزادیوں کا پسندیدہ عرق ِگلاب کشید کیا جاتا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے عرقِ گلاب کے تاجر محمد اکرم نے بتایا کہ ان کے آباؤاجداد بھی گلابوں کا عرق کشید کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کشید کا عمل مشینوں کی مدد سے کیا جاتا ہے مگر وہ گلاب اور دیگر جڑی بوٹیوں اور بیجوں کا عرق نکالنے کے لیے آج بھی صدیوں پرانا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مشینوں سے خالص عرق نہیں نکل پاتا۔
عرق کشید کرنے لیے انہوں نے چشمے پر بھٹیاں لگا رکھی ہیں جہاں ملک بھر سے حکما اپنی ادویات اور کشتے بنانے کے لیے اپنی نگرانی میں عرق کشید کراتے ہیں۔ انہی بھٹیوں میں اجوائن سے عرق چوعرقہ، سونف کا عرق، عرق نکو، عرق گاوَ زبان، عرق پودینہ، عرق کانسی، عرق لوکاٹ اور عرق جامن بھی نکالا جاتا ہے۔
محمد اکرم نے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ عرق نکالنے کا دورانیہ اور آگ کی تپش اگر موزوں نہ ہو تو محنت ضائع جاتی ہے۔ عام طور پر ایک بھٹی یا دیگ میں 10 کلو گرام پھولوں کی پتیاں ڈالی جاتی ہیں۔ آگ اگر ٹھیک طور پر جلائی جائے تو ایک گیلن عرق کشید کرنے میں قریباً 2 گھنٹے لگتے ہیں وگرنہ 4 سے 5 گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں، جبکہ ایک دیگ کے نیچے ایک دن میں 8 من تک لکڑی جل جاتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلر کہار کا عرق گلاب پاکستان بھر کے علاوہ عرب ممالک اور ملائیشیا بھی جاتا ہے اور وہاں کے لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ عرق کئی بیماریوں میں مفید ہے اور خواتین اسے چہرے پر نکھار لانے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب کلر کہار میں گلاب کی کاشت بہت کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے انہیں لاہور، پتوکی اور ساہیوال سے پھول منگوانا پڑتے ہیں۔