کالے شیشوں والی بلیک کلر کی لینڈ کروزر گاڑی گلی کے درمیان کھڑی تھی۔ پیچھے سے گاڑی آئی جس نے مین مری روڈپر مڑنا تھا۔ پچھلی گاڑی سے بندہ اترا اور اس نے ڈرائیور سے گاڑی سائیڈ پر کرنے کا کہا مگر ڈرائیور نے بدمعاشی شروع کر دی۔ بات تکرار سے گالم گلوچ تک پہنچ گئی، لوگ جمع ہو گئے۔ بھیڑ میں سے ایک شخص نکلا اور اس نے راستہ مانگنے والے شخص کو سائیڈ پر لے جا کراسے کہا یہ ایک بہت بڑے قبضہ مافیا کی گاڑی ہے، آپ ان سے پنگا نہ لو، یہ آئیں گے اور آپ کے اندر سے گولیاں نکال دیں گے، وہ شخص تھوڑا سا ٹھنڈا پڑ گیا، لینڈ کروزر کا ڈرائیور راستہ مانگنے والے کو گندی اور غلیظ گالیاں دے رہا تھا، بہرحال اس شخص نے گاڑی گھمائی اور سروس روڈ سے دوسری طرف نکل گیا۔
میں خود اس واقعے کا عینی شاہد ہوں۔ اگست کے آغاز میں لاہورکے ڈیفنس کمرشل ایریا میں معمر سکیورٹی گارڈکوڈبل کیبن گاڑی میں سوار 5 افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں، سکیورٹی گارڈ پر سیدھے فائر بھی ہوئے لیکن وہ خوش قسمتی بچ گیا اورپانچوں افراد ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے سفید رنگ کے ڈالے میں فرار ہوگئے۔ اگرچہ چند روز بعد میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق 2 ملزمان گرفتار بھی ہوئے لیکن آگے کیا ہوگا، سبھی جانتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور واقعے میں لاہور ڈیفنس بی میں پارکنگ ملازم محمد ایوب نے ایک نوجوان کو گاڑی غلط پارک کرنے سے روکا توملزم طیش میں آگیا اور اپنے گارڈز کوبلا کرپارکنگ ملازم کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
اسی طرح گزشتہ ماہ جولائی میں لاہور ہی کے علاقے ڈیفنس بی میں ویگو ہائی لیکس گاڑی میں سوار افراد نے ایک مہران گاڑی میں سوار افراد کو صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا کہ انہوں نے گاڑی کو اوورٹیک کیا تھا۔ یہ اس ملک میں روزانہ پیش آنے والے اشرافیہ گردی کے چند واقعات ہیں جو رپورٹ ہو جاتے ہیں یا سوشل میڈیا پر آ جاتے ہیں۔
آپ کوشاہ زیب قتل کیس یاد ہوگا، پاکستان کی تاریخ میں شاہ زیب قتل کیس کو بے انتہا میڈیا کوریج ملی، اس پر ٹاک شوز بھی ہوئے اور کالمزبھی لکھے گئے، شاہ زیب قتل کیس ہمارے نظام انصاف کا ٹیسٹ تھا لیکن ہم اس ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔ یہ واقعہ 24 دسمبر 2012ء کی شب کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں پیش آیا تھا، شاہ زیب کی چھوٹی بہن بڑی بہن کے ولیمے سے واپس آ رہی تھی، مرتضیٰ لاشاری نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی جس کے بعد فریقین میں تلخ کلامی ہوئی اور فائرنگ کے نتیجے میں شاہ زیب خان مارا گیا۔
اس مقدمے میں شاہ رخ جتوئی، ان کے دوست نواب سراج تالپور، سجاد تالپور اور ان کے ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اس کیس کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد مفرور شاہ رخ جتوئی کو دبئی، نواب سراج تالپور کو نوشہرو فیروز اور دیگر ملزمان کو سندھ کے دیگر علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جون 2013 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت 2 ملزمان کو سزائے موت جبکہ 2 کو عمر قید کی سزا دینے کا حکم دیا تھا لیکن آپ المیہ ملاحظہ کیجیے۔
سزائے موت کا سن کر بڑے بڑے پھنے خان رو پڑتے ہیں لیکن شاہ رخ جتوئی اوراس کے دوستوں نے عدالت کے باہر وکٹری کے نشان بنائے اور تالیاں بجائی تھیں، کیوں؟ کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا اور بالآخر10 سال بعد اکتوبر 2022ء میں ملزمان کو صلح کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا۔ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مقتول شاہ زیب ایک ایس پی کا بیٹا تھا، اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ایک ایس پی بھی ظالم جاگیرداروں اور وڈیروں سے نہ لڑ سکا، وہ بھی یہاں سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امریکا شفٹ ہو گیا اور صلح کر لی۔
آپ کوئٹہ کے ٹریفک سارجنٹ عطاءاللہ کے گاڑی کے نیچے کچلے جانے کا واقعہ بھی ملاحظہ کر لیجیے، یہ واقعہ بھی پورے ملک میں مشہور ہوا تھا، اس واقعے کو بھی ہمارے نظام انصاف کا ٹیسٹ کیس کہا گیا اور ہمارا نظام عدل اللہ کے فضل سے ہمیشہ کی طرح اس ٹیسٹ میں بھی فیل ہو گیا، 20 جون 2017ء کو ٹریفک سارجنٹ عطاءاللہ کوئٹہ کے جی پی او چوک میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر گاڑی تیزرفتار سے آئی اور سارجنٹ عطاءاللہ کو بے دردی سے کچل کر رکھ دیا جس کی وجہ سے سارجنٹ عطاءاللہ موقع پر جاں بحق ہو گیا۔
جس گاڑی نے ٹریفک پولیس انسپکٹر کو ٹکر ماری تھی وہ بلوچستان اسمبلی کے رکن اور اسمبلی کے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی کی تھی۔ ابتدائی طور پر سول لائنز پولیس نے ٹریفک پولیس انسپکٹر کی ہلاکت کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا تاہم جب اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا پر نشر ہوئی، میڈیا اور سوشل میڈیا کا پریشر آیا توچار دن بعد 24 جون 2017ء کو مجید خان اچکزئی کو گرفتار کر لیا گیا،28 جون2017ء کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی واقعے کا سوموٹو نوٹس لے کر آئی جی بلوچستان سے 3 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔
بعدازاں مجید اچکزئی نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹریفک پولیس اہلکار کے اہل خانہ کو ہرجانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن مقتول کے بیٹے معظم عطاءاللہ نے کسی بھی قسم کی صلح کی پیش کش ٹھکرا دی لیکن پھر اس کیس کا فیصلہ وہی ہوا جس کی توقع تھی، ملزم چونکہ بااثر شخصیت تھی اس لیے انہیں 4 ستمبر2020ء کو عدم ثبوت کی وجہ سے بری کر دیا گیا، دن دیہاڑے روڈ ایکسیڈنٹ میں ایک جان چلی گئی، اس کے تمام تر ویڈیو ثبوت اور سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی موجود تھیں لیکن اس کے باوجود عدم ثبوت کی بنا پر رہائی یہ بات سمجھ سے باہر تھی، اس کیس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ پاکستان میں غریب کو انصاف ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔
آپ اب لاہور کے 13 سالہ ارسلان نسیم اور اس کے خاندان کے ساتھ جو بربریت ہوئی وہ بھی ملاحظہ کر لیں۔ ارسلان نسیم کی عمر14 سال ہے اور یہ لاہور گلبرگ ٹو اتحاد کالونی کا رہائشی ہے۔ اس کے والد محمد نسیم سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتے تھے، ارسلان 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ پولیس نے 21 جون 2023 ءکو لاہور کے علاقے گلبرگ سے اسے حراست میں لیا۔
اسے عسکری ٹاور حملہ کیس میں نامزد کیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ پراسیکیوشن کے مطابق ارسلان نسیم کے موبائل فون سے ایسا مواد نکلا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہے۔ ارسلان نسیم کے وکیل رانا انتظار جو لاہور بار کے صدر بھی ہیں ان کا کہناہے یہ بچہ (ارسلان نسیم) ان معاملات میں ملوث نہیں ہے۔ ہم نے عدالت میں یہ بات ثابت بھی کی کہ ارسلان کی عمر بہت کم ہے اوراس کا ٹرائل بچوں کے لیے بنائی گئی عدالت میں کیا جائے۔ کم عمری ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 اگست کو اس کی ضمانت منظور کر کے رہا کرنے کا حکم دیا۔
ارسلان نسیم کو ضمانت کے باوجود پولیس نے دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی اور اس کے گھر پر 3 بار ریڈ کیا اور گھر میں گھس کر توڑپھوڑ کی، ایک ایسا شخص جس کے گھر میں پانچ بیٹیاں ہوں، دل کا مریض بھی ہو اور اس کے گھر پر پولیس بار بار چھاپے مار رہی کیا وہ یہ صدمہ برداشت کر سکتا تھا؟ ارسلان کے والدین بار بار پولیس کے سامنے گڑگڑا رہے تھے کہ جب ان کے بیٹے کی ضمانت ہو چکی ہے تو پولیس پھر بار بار کیوں تنگ کر رہی ہے؟ پولیس کے اس رویے سے ارسلان کے والد کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔
یہ ظلم صرف یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ ارسلان کے والد کی جلد تدفین کے لیے بھی پولیس نے دباﺅ ڈالا اور 3 گھنٹے کے اندر اندر اس کی تدفین کر دی گئی، والد کے جنازے میں نہ بیٹا موجود تھا اور نہ بیٹیاں گھر پر تھیں۔ ارسلان نسیم کے وکیل کا یہ بھی دعویٰ ہے جب ارسلان تھانے میں بند تھا تو پولیس ارسلان کے خاندان کووقتاً فوقتاً تنگ کرتی رہی حتیٰ کہ ارسلان نسیم کی بہنوں کو تھانے بلا کر حراساں بھی کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم کے والد کی پولیس تشدد سے ہلاکت کی خبریں آنے کے بعد لاہور پولیس نے سوشل میڈیا پرایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ تشدد والی بات بالکل جھوٹ ہے البتہ دیگر الزامات پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
یہ واقعات سڑتے ہوئے جوہڑ کا صرف ایک جھونکا ہیں۔ ظلم وبربریت کی روزانہ سینکڑوں ایسی وارداتیں ہوتی ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیاپر رپورٹ نہیں پاتیں۔ اس ملک میں اشرافیہ بے لگام ہے اور پولیس جس نے مظلوم کو ظالم سے بچانا ہوتا ہے وہ خود ظلم کرنے میں مصروف ہے۔ یہ معاشرہ ایک ایسا جنگل بن چکا ہے جس میں ہر طاقتور کمزور کو مار رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ کیا ہم انسان ہیں اور کیا یہ معاشرہ، معاشرہ کہلانے کے لائق ہے؟ کیا لوگ اس ملک میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں؟
اس ملک میں اگر کسی کی زمین پر قبضہ ہو جائے، کسی کا عزیز قتل ہو جائے، کسی کی گاڑی چھن جائے، کسی کا بیٹا اغواءہو جائے، کسی پر جھوٹے ایف آئی آر ہو جائے تو کیا اس ملک کے نظام انصاف میں اتنی جان ہے کہ وہ اس کی داد رسی کر سکے خاص طور پر اس وقت جب زیادتی کرنے والے کا تعلق کسی مقتدر ادارے سے ہو یا پھر وہ کوئی طاقتور وڈیرہ یا جاگیر دار ہو؟ میں جب اس ملک میں اشرافیہ گردی اور پولیس گردی کا شکار ہونے والے واقعات دیکھتا اور سنتا ہوں تو اس کے بعدذہن میں اکثر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’جس انگریز سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی وہ زیادہ ظالم تھا یا اس ملک کی اشرافیہ زیادہ ظالم ہے‘؟
اگر آزادی کا مقصد طاقتور کو ہر کام میں کھلی چھٹی دینا تھا تو پھر مبارک ہو ہم نے وہ آزادی حاصل کر لی لیکن اگر آزادی کامقصد یہ تھا کہ تمام شہریوں کومساوی حقوق حاصل ہوں گے اورطاقت کے نشے میں کوئی طاقتور کسی سے زیادتی نہیں کر سکے گا تو پھر ہم ابھی تک اس آزادی سے کوسوں دور ہیں۔