مردم شماری اور حلقہ بندیاں کیوں ضروری ہیں؟

جمعہ 25 اگست 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے امن و امان اور معاشی ترقی برقرار رکھنے کے علاوہ ریاست کی ذمہ داریوں میں اس بات کی منصوبہ بندی بھی ایک  لازمی جزو ہے کہ ملک کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی، بچوں کے لیے سکول کالجز و یونیورسٹیاں، لوگوں کے لیے اسپتال و طب کی سہولیات کے ساتھ ساتھ نقل و حمل کا مناسب بندو بست کیا جائے۔

لیکن یہ تمام اقدامات تب ہی مؤثر طریقے سے اٹھائے جاسکتے ہیں جب ریاست کے پاس مجموعی آبادی، اس کے سالانہ اضافے کا تناسب، شہری و دیہی آبادی کی شرح کے درست اعداد و شمار ہوں۔

تاکہ اسی مناسبت سے مناسب منصوبہ بندی اور سہولیات کا بندوبست کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے ملکوں میں مردم شماری کی جاتی ہے تاکہ ملکی منصوبہ بندی ٹھوس اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاسکے۔

یہ تو ہوگیا کہ مردم شماری کیوں ضروری ہے؟۔ اب اگر آپ کو ذرا پاکستان میں ہونے والی مردم شماری کی مختصر تاریخ سے روشناس کرایا جائے کہ مملکت خداد میں کب، کب مردم شماری کی گئی۔

تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ پاکستانی قوم کے مزاج کی طرح ہماری حکومتیں بھی مستقل مزاج نہیں ہیں۔ ہر 10 سال بعد مردم شماری لازمی تھی اس کو مختلف اوقات میں ملتوی کیا جاتا رہا ہے ۔

پاکستانی میں پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی جس کے تحت پاکستان کی مجموعی آبادی 7کروڑ 57 لاکھ تھی جس میں سے 3 کروڑ 30 لاکھ مغربی پاکستان اور 4 کرور 20 لاکھ مشرقی پاکستان کی آبادی تھی۔

ملک میں دوسری مردم شماری کا انعقاد 1961 میں کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ تھی، اسی طرح تیسری مردم شماری جو کہ 1970 میں ہونی تھی وہ ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی اور مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے بعد 1972 میں مردم شماری ہوئی۔جس کے مطابق ملک کی آبادی 6 کروڑ 50 لاکھ تھی۔

پاکستان میں چوتھی مردم شماری 1981 میں ہوئی اور مجموعی آبادی 8 کروڑ 37 لاکھ پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد پاکستان میں سیاسی بحرانوں کی وجہ سے پانچویں مردم شماری 17 سالوں بعد 1998 میں ہوئی جس کے مطابق ملک کی آبادی 13 کروڑ 47 لاکھ تک پہنچ گئی۔

ایک مرتبہ پھر مردم شماری میں تعطل آگیا اور 19 سال کے وقفے کے بعد 2017  میں پھر چھٹی مردم شماری کرائی گئی جس میں ملک کی آبادی 21 کروڑ سے تجاوز کر گئی۔

اب 2023 میں ملک کی ساتویں مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔سوال یہ ہے کیا جس تناسب سے ملک کی آبادی بڑھی ہے کیا اسی مناسبت سے حکومتوں نے آبادی کے لیے وسائل پیدا کیے؟ کیا روزگار کے مواقع، تعلیم و صحت، نقل و حمل کے ذرائع میں بھی اسی طرح اضافہ ہوا؟ ملک کے معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب قارئین خود اخذ کر سکتے ہیں ۔

ملک کی آبادی بڑھنے کے اعداد و شمار تو قوم کے سامنے آگئے ، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں آجکل اس بات پر خوب بحث و مباحثہ ہو رہا ہے کہ آخر عین اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے پاکستان ڈیموکریٹک آلائنس (پی ڈی ایم) کی حکومت نے مشترکہ مفاد کونسل (سی سی آئی) کے فورم سے نئی مردم شماری کو کیوں منظور کیا؟ کیا اس کا مقصد انتخابات میں تاخیر کرنا ہے؟

جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی ) کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے الزامات عائد کیے ہیں کہ ’پی ڈی ایم ‘عمران خان کی شہرت سے خائف ہے اور الیکشن سے بھاگنا چاہتا ہے، اسی لیے الیکشن کے انعقاد میں تاخیری حربے کے طور پر نئی مردم شماری کی منظوری دی گئی ہے۔ اب چونکہ نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور اس پورے عمل کو مکمل ہونے میں تقریباً 120 دن لگ جاتے ہیں۔آئین میں مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے احکامات واضح ہیں۔

آئین پاکستان کے پارٹ 3 چیپٹر 2 میں جو کہ مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے بارے میں ہے، کے آرٹیکل 51 (5) کے تحت قومی اسمبلی کی تمام نشستیں مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی کے تناسب سے صوبوں کو مختص کی جا تی ہیں۔

جبکہ مردم شماری کی منظوری کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کے فورم سے لی جاتی ہے۔ سی سی آئی کے کیا اختیارات اور فرائض ہیں یہ آئین کے پارٹ 4 چیپٹر 3   میں جو کہ وفاق کے صوبوں سے تعلقات سے متعلق ہیں، میں بیان کیے گئے ہیں۔

اگر کسی صوبے کو مردم شماری کے نتائج پر اعتراض ہو تو ان اعتراضات کا ایپلیٹ فورم پارلیمنٹ ہے۔ ان اعتراضات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کر کے منظوری لی جاسکتی ہے یا مسترد کیا جاتا ہے۔

جب مردم شماری کی باقاعدہ کونسل آف کامن انٹرسٹ سے منظوری ہوجاتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن رولز کے تحت حلقہ بندیوں کا تعین کرتا ہے۔

حلقہ بندیاں جب فائنل ہو جاتی ہیں تو اس میں بہر طور اعتراضات بھی اٹھتے ہیں کہ فلاں ضلع کو آبادی کے تناسب سے سیٹیں کم ملی ہیں یا زیادہ ملی ہیں۔

ان اعتراضات کو دور کرنے کا مجاز فورم الیکشن ٹربیونل ہوتا ہے اور اگر اعتراضات پھر بھی قائم رہتے ہیں تو معاملہ ہائی کورٹس میں جاتا ہے وہاں سے بھی کوئی پارٹی مطمئن نہ ہو تو پھر آخری فورم سپریم کورٹ ہے۔

گویا اس سارے عمل میں 3 سے 4 ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کی حکومت اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے مردم شماری کی منظوری نہ دیتی تو کیا مسئلہ تھا؟ ظاہری بات ہے جب نئی اسمبلی وجود میں آتی تو اس نے مردم شماری کی منظوری تو دینی ہی تھی۔

 لیکن مردم شماری کے بعد جب نئی حلقہ بندیاں ہوتیں تو پھر ضمنی انتخابات میں مسائل کھڑے ہو سکتے تھی اگر کسی ضلع کی حلقہ بندی تبدیل ہوتی تو پورے انتخابی عمل میں پیچیدگیاں پیدا ہو جانی تھیں۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کا تعین بالکل درست فیصلہ ہے لیکن پاکستان کی سیاست بھی عجیب رنگ ہے ۔ وہی پیپلز پارٹی جس کے صوبہ (سندھ) کے وزیراعلیٰ نے سی سی آئی میں مردم شماری کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا وہ بھی اب اعتراضات اٹھا رہی ہے کہ الیکشن میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ مردم شماری کے بعد کے عمل میں 90 سے 120 دن لگیں گے۔ اس کے باوجود بھی مردم شماری کی منظوری میں ووٹ دیا اور اب بروقت انتخابات کرانے کا ڈراما رچایا جا رہا ہے۔

بہر حال مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے تو آئینی و قانونی تقاضے پورے ہوگئے۔ امید کرتے ہیں انتخابات جو کہ ایک آئینی تقاضا ہے وہ بھی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہونے کے بعد فوری طور پر منعقد ہوں گے تاکہ پاکستان کے عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرکے اقتدار ان کو سونپ سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp