امریکی ریاست منی سوٹا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر اور میئو کلینک کے سابق ریسرچ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد مسعود کو دہشت گردی کے الزام پر 18 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ امریکی ڈسٹرکٹ جج پال میگنسن نے جمعہ کو سینٹ پال میں اپنا فیصلہ سنایا۔
امریکی میڈیا کے مطابق 31 سالہ نژاد ڈاکٹر مسعود پر شام میں لڑنے کے لیے اسلامک اسٹیٹ دہشت گرد گروپ میں شامل ہونے کی کوشش اور امریکی سرزمین پر حملے کرنے میں دلچسپی ظاہر کرنے کے الزامات تھے۔ انہوں نے ایک سال قبل ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کی کوشش کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
امریکی میئو کلینک نے تصدیق کی ہے کہ مسعود پہلے جنوب مشرقی مینیسوٹا شہر روچیسٹر میں ان کے میڈیکل سینٹر میں ملازمت کرتے تھے، تاہم اپنی گرفتاری کے وقت وہ وہاں ملازم نہیں تھے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مسعود نے 2020 میں امریکہ سے شام کے راستے اردن جانے کی ناکام کوشش کی، پھر وہ منیاپولس سے لاس اینجلس کے لیے پرواز کرنے پر راضی ہو گئے تاکہ کسی ایسے شخص سے ملاقات کر سکے جس کے بارے میں ان کے خیال میں اسے کارگو جہاز کے ذریعے دہشت گرد تنظیم داعش کے علاقے تک سفر کرنے میں مدد ملے گی۔
ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے ورک ویزا پر امریکا میں مقیم ڈاکٹر محمد مسعود کو 19 مارچ 2020 کو منیاپولس ایئرپورٹ پر اس وقت گرفتار کر لیا جب انہوں نے اپنی فلائٹ کے لیے چیک ان کیا تھا۔
استغاثہ کے مطابق ملزم ڈاکٹر مسعود نے جنوری 2020 سے داعش کا رکن سمجھتے ہوئے بامعاوضہ مخبروں کو دیے کئی بیانات میں داعش اور اس کے رہنما سے اپنی وفاداری کا عہد کیا۔ استغاثہ نے یہ بھی کہا کہ ملزم نے امریکا میں تن تنہا حملے کرنے کی خواہش کا اظہار بھیکیا۔
ایف بی آئی کے ایک حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ایجنٹوں نے 2020 میں یہ جاننے کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا کہ کسی نے، جسے بعد میں ڈاکٹر محمد مسعود کے نام سے شناخت کرلیا گیا تھا، ایک خفیہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پیغامات پوسٹ کیے ہیں، جن میں اسلامک اسٹیٹ کی حمایت کے ارادے کا ذکر ہے۔
ایف بی آئی کے حلف نامہ میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر مسعود نے پلیٹ فارم پر موجود مخبروں میں سے ایک سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہے اور افغانستان کے قریب شام، عراق یا شمالی ایران کا سفر کرنا چاہتا ہے تاکہ فرنٹ لائن پر لڑنے کے ساتھ ساتھ زخمی بھائیوں کی مدد کی جا سکے۔
اسلامک اسٹیٹ گروپ نے 2014 میں عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کرتے ہوئے دنیا بھر سے جنگجوؤں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس گروپ نے 2019 میں مذکورہ علاقوں پر اپنی گرفت کھو دی تھی۔
لیکن اقوام متحدہ کے ماہرین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حالیہ ناکامیوں کے باوجود اس کے سابق گڑھ میں اب بھی 5 سے 7 ہزار ارکان موجود ہیں، اور اس گروپ سے وابستہ جنگجو آج افغانستان میں دہشت گردی کا سب سے سنگین خطرہ ہیں۔
امریکا میں منی سوٹا دہشت گرد گروپوں کے لیے بھرتی کا مرکز رہا ہے، یہاں مقیم صومالی برادری کے تقریباً تین درجن مرد 2007 میں یا تو القاعدہ سے منسلک الشباب میں شمولیت اختیار کرنے مشرقی افریقہ یا پھر شام میں اسلامک اسٹیٹ جیسے عسکریت پسند گروپ کی خاطر ملک سے چلے گئے تھے۔کئی دیگر افراد کو دہشت گردی سے متعلقہ الزامات میں ان گروپوں میں شامل ہونے یا ان کی مدد فراہم کرنے کے الزام میں سزا سنائی جاچکی ہے۔