پاکستان میں یورپ

پیر 28 اگست 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے نامور تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کہا کرتے ہیں کہ امریکہ کے مقابلے میں یورپ گاؤں کا درجہ رکھتا ہے۔ یقینا ً وہ امریکہ کے سُپر پاور ہونے، ہائی ٹیک اور سُپر سونک ترقی کی رفتار اور روز مرہ زندگی میں آگے بڑھنے کی اپروچ ،عالمی معاملات میں ایک طرح کی اجارہ داری کی وجہ سے ایسا کہتے ہوں گے ۔

لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ یورپ ایک طویل تبدیلی کے عمل سے گزرا ہے ۔ صنعتی دور میں داخلے کے بعد یورپ نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ گو کہ دو ہولناک عالمی جنگوں نے یورپ کو تہہ و بالا کر دیا مگر جس ترقی اور سوچ کی تبدیلی کے عمل کو یورپین اپنا چکے تھے اُس کو انھوں نے نہیں چھوڑا۔ ایسا کرنے کے لئے انھوں نے کوئی قرارداد پاس نہیں کی بلکہ حالات و واقعات نے انھیں سکھایا کہ کوئی بھی ہو خواہ قوم یا فرد ،جو وقت کی چال کو نہیں سمجھتا وہ زندگی کی دوڑ پیچھے رہ جاتا ہے۔

امریکہ نے یورپ سے بھی ایک قدم آگے رکھا اور کم از کم پچھلی نصف صدی سے زائد عرصہ ہوچکا ہے وہ دنیا کا آقا بنا ہوا ہے۔ اسی لیے عمر چیمہ یورپ کو امریکہ کے مقابلے میں گاؤں قرار دیتے ہوں گے۔

اب چین بھی ترقی اور خوش حالی کے ایسے ہی عمل سے گزر رہا ہے۔ وسائل نہ ہوں تو قدرتی خوب صو رتیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں۔ جب بھی وقت ملتا ہے اور حالات بنتے ہیں گلگت بلتستان جانا اچھا لگتا ہے ۔ سچ پوچھیے تو یہ خطہ پاکستان میں ایک منی یورپ ہے۔ پہلی دفعہ میں چار دوستوں کے ساتھ 2017ء میں گلگت جانا ہوا۔ ہوا یوں کہ احمر سہیل بسراء نے اپنی ٹرانسفر گلگت کروا لی۔ حالاں کہ ہم سب دوستوں کا ایک مشترکہ خیال تھا کہ “پنجابی دربار”سے احمر کی ارتھی ہی اُٹھے گی ۔

وہ جیتے جی تو سکھ بھائیوں کا پروگرام نہیں چھوڑیں گے ۔ لا ہور میں ان کا گھر ہے او ر وہیں ان کا دفتر لہذا وہ سہولت سے کیوں دست بردار ہوں گے۔ مگر فرحان مشتاق جو اپنی پہلی پوسٹنگ ہی گلگت گزار چکے تھے۔ انھوں نے احمر کو کس طر ح وہاں جانے پر قائل کر لیا،کیسے قائل کیا یہ بات صرف وہ دونوں ہی جانتے ہیں ۔ بہرحال اسلام آباد سے عزیر اور میں بھی فرحان اور احمر کے ساتھ ہولیے۔ پہلا پڑاؤ ہم نے بشام جا کر ڈالا اور اگلی صبح اُٹھ کر چل نکلے۔ احمر کی سنبھل کر گاڑی چلانے کی ادا نے اگلی رات چلاس بسر کرنے کو روک لیا۔ ہم ہنستے ،گاتے،نت نئی جگہوں پر تصویریں بناتے تیسرے دن منزلِ مقصود تک جا پہنچے۔

مجھے گلگت اور اور وہاں کے لوگ بہت اچھے لگے۔ ہنزہ دیکھ کر تو ایسا لگا کہ شاید جنت بھی ایسی ہی ہوگی۔ واپسی پر ہم چاروں دوست بلند و بالا پہاڑی چو ٹیوں کے نظارے کرتے ہوئے ہوائی جہاز سے اسلام آباد کے پرانے ائیر پورٹ پر آ اُترے۔ اگلے برس ہی ستمبر میں فیملی کے ساتھ جانا ہوا تو، استور، راما جھیل، ہنزہ اور خنجراب تک جانا ہوا۔ 2020 ء میں حافظ حفیظ الرحمان کی حکومت نے اپنی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ڈاکو منٹری بنانے کے لئے برادرم ڈاکٹر حسیب الرحمان کی کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔ وہ ڈ اکو مینٹری احمر اور راقم نے مل کر لکھی۔

فروی2020ء میں ہی جب کروناوائرس کے خوف نے پورے ملک کو اپنے خوف کی لپیٹ میں لینا شروع کیا تھا ۔ حسیب وڑائچ نے کہا کہ چلیں گلگت چلیں ۔ ڈاکو منٹری اور دیگر پروموشنل پیکجز کی شوٹنگ کے لئے ان کی ٹیم نے پورے گلگت بلتستان جانا تھا۔ حسیب کی جیب اور دل دونوں بہت کھلے ہیں ۔

ان کو جب بھی چار پیسے کسی پراجیکٹ سے منافع کے ملیں وہ فورا دوستوں کا پُر تکلف کھانا کرتے ہیں۔ یہ تو وہ پراجیکٹ تھا جس میں ہمارا براہِ راست عمل دخل تھا ۔ساتھ ہونے کا فائدہ یہ تھا کہ جہاں ضرورت پڑتی احمر اور راقم سکرپٹ میں فوراً بوقتِ ضرورت ردو بدل کر سکتے تھے۔ سو حسیب کی دعوت پر ان کی ٹیم کے ہم راہ چلے گئے۔ گلگت پہنچتے ہی ڈاکٹر احمر بسراء نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ باقی ٹیم کھانے کے بعد ہوٹل چلی گئی۔اگلی صبح وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اور ان کے وزرا ء سے ملاقات ہوئی۔ حافظ صاحب نے حفظ لاہور سے کیا تھا اس لئے پنجابی بھی بہت آسانی سے بولتے ہیں۔

پراجیکٹ پر کام شروع ہوا تو گلگت بلتستان کو ہم نے نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ آئینی طور پر گلگت بلتستان ، کشمیر کا حصہ ہے، مگر وہاں کے باشندوں اصرار اور درینہ مطالبہ ہے کہ ہم نے آزادی اپنے زورِ بازو سے لی اس لئے ہماری آزادانہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور گلگت بلتستان کو صوبے کا مکمل سٹیٹس دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پہلی دفعہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کے پہلی دفعہ انتخابات کا انعقاد ہوا اور وہاں کے لوگوں کو اپنے نمائندے چننے کا اختیار ملا۔ یوں آج کل وہاں کے گورنر سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ قمر زمان قائرہ وہاں کے پہلے قائم مقام گورنر تھے ۔ یوں خطے کے لوگوں کو پہلی دفعہ کسی حد تک آزادانہ جمہوری ماحول میسر آیا۔ گو کہ وہاں کے باسی اس کو ابھی ادھورا خیال کرتے ہیں ۔ خدا کرے کسی طرح کشمیر کا مسئلہ حل ہو تو سارے خطے کی قسمت بدل سکے۔

اس برس سکردو، شگر ، خلتی جھیل، غذر، یاسین،ہنزہ، گوپس جانے کا موقع ملا۔

پچھلے برس جولائی میں برادرم رانااکمل خان نے ایک زبر دست ٹریکنگ ٹورترتیب دیا۔ جولائی کی ایک درمیانی رات فلائنگ کوچ میں گلگت کے لئے روانہ ہوئے اور اگلے دن سہ پہر جا پہنچے ۔ رات وہاں بسر کی اور اگلی صبح شندور پولو میلہ دیکھنے روانہ ہو گئے۔ رستے میں ایک دوکان سے پٹرول ڈلوا بیٹھے اور پھر ایسا پھنسے کہ رات گئے کہیں شندور کے نواح میں کیمپنگ کی اور اگلی صبح شندور پولو میلے میں جا ،ناشتہ کیا۔ فائنل میچ کا کچھ حصہ دیکھا اور پھر کھوکوش جھیل کی طرف ٹریکنگ کے لئے روانہ ہو گئے۔

مجھے شاید پہلی دفعہ زندگی میں پتا چلا کہ ٹریکنگ کس بلا کا نام ہے۔ اس ساری مہم جوئی کی تفصیل بی بی سی اردو پر راقم لکھ چُکا ہے کہ کس طرح چار راتوں اور پانچ دنوں کا یہ سفر مہوڈنڈ جھیل تک طے کیا۔ جولائی کے وسط میں میں بچوں کے ساتھ گلگت بلتستان جانے کا پروگرام بنا۔ دو دہایا ں قبل جب رحیم گُل کا ناول “جنت کی تلاش ” پڑھا تھا تو دنیا کے بلند ترین میدان دیو سائی میں کھلنے والے پھول دیکھنے کی حسرت دل میں تھی جو سال میں ایک دفعہ ہی کھلتے ہیں ۔ جولائی کے آخری دنوں اور اگست کے پہلے دنوں میں یہ پھول جوبن پر ہوتے ہیں۔

دفتر سے چھٹی لی تو خیال آیا ڈی جی ریڈیو طاہر حسن صاحب کو بھی بتا دوں کہ میں اگلے 15 روز دفتر میں نہیں ہوں گا۔ کیوں کہ ان کے دروازے ایک غیر روایتی بیوروکریٹ کی طرح ہر ایک کے لئے تو کھلے ہیں مگر اپنی کور ٹیم کے ساتھ وہ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ وہ یہ نہ کہیں کہ بغیر بتائے دو ہفتے کے لیے غائب ہو گیا ہے۔ جونہی انھیں اپنے جانے کا بتایا تو وہ کہنے لگے کہ سیر بھی کریں مگر ساتھ ہی دفتر کا کام بھی کر کے آئیں۔ ایک تو یہ دیکھ کر آئیں کہ کس طرح گلگت اور سکردو کے ریڈیو اسٹیشنز کو مالی طور پر خود کفیل بنایا جا سکتا ہے؟ دوسرا ریلز بنا لائیں کہ وہاں صورتِ حال کیا ہے۔ یوں ہمارا اس سال کا گلگت بلتستان کا ایک کامیاب دورہ رہا ۔ سیر کی سیر اور کام کا کام کیا ۔
کیا کچھ کام کیا اور کتنی سیر کی یہ آپ کو اگلی نشست میں بتائیں گے کہ کس طرح گلگت بلتستان پر پاکستان کے یورپ کا گمان ہوتا ہے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp