پاکستان اور چین کے درمیان اقوام متحدہ کے ’بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ کنونشن ‘کے تحت تجارت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دوطرفہ تجارت کے آغاز سے پاک چین اقتصادی راہداری بھی باقاعدہ طور پر فعال ہو گئی ہے ۔ جب کہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کو بہتر کرنے اور سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے چین سے روزانہ کی بنیاد پر تجارتی رسد کا پاکستان آنا ضروری ہے۔
نیشنل لاجسٹک کارپوریشن (این ایل سی) کے چین کی معروف کمپنی سیوا لاجسٹکس کے ساتھ اشتراک کے بعد پہلی بار ٌیو این انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ کنونشن کے تحت سامان کی سرحد پار ترسیل کا آغاز ہو گیا۔
مزید پڑھیں
اس خبر کے بعد عوامی حلقوں میں ایک بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ ’ کیا پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آغاز سے ملک کو درپیش معاشی مسائل حل ہو سکیں گے یا نہیں؟
اس وقت ملک شدید معاشی بحران سے دو چار ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے مہنگائی کے تناسب میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرول اور بجلی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکے ہیں جبکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینیئرریٹائرڈ بیوروکریٹ اور معاشی ماہر محفوظ خان نے کہا کہ ملک کی معاشی صورت حال انتہائی خراب ہےجسے بہتر کرنے کے لیے تجارتی رسد کا مستقل طور پر پاکستان آنا ضروری ہے۔
اس سے قبل بلوچستان میں ریکوڈیک کے منصوبے کا آغاز کیا گیا جو 3 بلین ڈالر سے زیادہ کا تھا یہ بھی ملک کی معاشی ابتری کو بہتر نہ کر سکا۔
محفوظ خان نے بتایا کہ اس سے قبل گوادر میں 6 تجارتی بحری بیڑے آچکے ہیں جس سے ملک میں سرمایہ کاری کو تو فروغ ملا لیکن معیشت کی بہتری میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا اس کے لیے ضروری ہے کہ دوطرفہ تجارت کا سلسلہ ہر روز کی بنیاد پر جاری رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک مستقل بنیادوں پر دو طرفہ تجارت کا آغاز نہیں ہوگا، معیشت کی گاڑی بہتری کی جانب گامزن نہیں ہوسکے گی۔
محفوظ خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گوادر میں پورٹ آپریشن بہتر بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں 120 کرینیں لگانے کا پروگرام بھی بنایا گیا ہے لیکن ہمارا مقابلہ دُنیا کے بڑے بڑے پورٹس سے ہے ہمیں ان اقدامات میں تیزی لانا ہوگی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا تصّور صرف ایک ہائی وے کا نہیں بلکہ ایک اقتصادی زون کا ہے۔ ہمیں ’سی پیک‘ کے مغربی روٹ پر اکنامک زون جلد سے جلد بنانا ہوگا تاکہ اس کا براہٓ راست فائدہ پہنچ سکے۔
چین عالمی دُنیا سے 70 فیصد تیل برآمد کرتا ہے جس کے لیے چین اس وقت ایک لمبا راستہ استعمال کررہا ہے تاہم اگر چین ایک راہداری سے ہی 25 فیصد تک برآمد ات کرے تو ملکی معیشت میں اربوں ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری بلوچستان کے سابق صدر فدا حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل لاجسٹک کارپوریشن (این ایل سی) کی جانب سے سی پیک روٹ پر تجارت کا آغاز کرنا ایک خوش آئند بات ہے، اس سے سی پیک روٹ تجارت کے لیے فعال ہوگا جس کا براہٓ راست فائدہ ملکی معیشت کو پہنچے گا۔
فدا حسین نے مزید کہا کہ سی پیک روٹ کے ذریعے تجارت کے سلسلہ کو روزانہ کی بنیاد پر شروع ہونا چاہیے، جس سے گوادر پورٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہوگا اور جتنا گوادر پورٹ استعمال ہو گا، غیر ملکی سرمایہ کار بھی ملک میں انوسٹمنٹ زیادہ کریں گے۔
اس کے علاوہ گوادر میں کاروباری ایکسپو کا بھی انعقاد کروانا ضروری ہے جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خطے کی اہمیت اور یہاں سے تجارت میں ہونے والے فائدے کے بارے میں بھی آگہی ملے گی۔
ایک سوال کے جواب میں فدا حسین نے بتایا کہ گوادر پورٹ کے فعال نہ ہونے سے بلوچستان کی تجارت صرف افغانستان اور ایران تک محدود ہے اگر گوادر پورٹ مکمل طور پر فعال ہو جائے تو ملک کے کاروباری حضرات کو چین سے تجارت کرنے میں آسانی ہوگی اور یوں مقامی تاجر وں کا دنیا بھر میں تجارت کرنا آسان ہو سکے گا۔