اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر عمران خان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے فیصلہ جاری کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا معطل کی جاتی ہے۔ ٹرائل کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ پر سزا کا فیصلہ سنایا۔
سزا معطلی کے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے قائم علی شاہ کیس کا حوالہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ضروری نہیں ہر کیس میں سزا معطل ہو، ’سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ قرار دے چکی کہ ضمانت دینا یا انکار کرنا ہائی کورٹ کی صوابدید ہے‘۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ اس کیس میں دی گئی سزا کم دورانیے کی ہے، عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی سزا معطلی کا مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کا فیصلہ حاصل کرنے کے باوجود سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اٹک جیل ہی میں قید رہیں گے۔ عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے 15 اگست کو جوڈیشل کر دیا تھا۔ انہیں 30 اگست تک اٹک جیل میں رکھنے کے احکامات دیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کا فیصلہ آج دوپہر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے دیا تھا جس کی سربراہی چیف جسٹس عامر فاروق کر رہے ہیں۔ جب کہ بینچ میں شامل دوسرے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری تھے۔
5 اگست کو اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن عدالت سے عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی جس کے بعد انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل بھیج منتقل کر دیا گیا تھا۔
عمران خان کی سزا معطلی کا کیس، کب کیا ہوا؟
سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ کا 2 رکنی بینچ نے سنا دیا۔
5 اگست کو اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن عدالت سے عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی جس کے بعد انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل بھیج منتقل کر دیا گیا۔
ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر پہلی سماعت 9 اگست کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی۔
پہلی سماعت میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کے ابتدائی دلائل دیے جس کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری ہونے کے بعد سماعت کو 10 اگست تک ملتوی کردیا گیا تھا، تاہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث اگلے روز سماعت نہیں ہوسکی تھی۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کی طبیعت ناسازی کے سبب درخواست اگلے ہفتے بھی سماعت کے لیے مقرر نہ ہوسکی اور دوسری سماعت 22 ستمبر کو ہوئی۔ جس میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے طویل دلائل دیے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی تاہم لطیف کھوسہ کے احتجاج کے باعث سماعت 2 دن تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
اسی دوران 23 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی ایڈیشنل سیشن عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ابتدائی سماعت میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کو بادی النظر میں غلط قرار دیتے ہوئے سماعت ایک روز تک ملتوی کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک کوئی حکمنامہ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی توعمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے 3 نکات پر اپنے دلائل دیے۔ لطیف کھوسہ کے ایک گھنٹے پر مشتمل دلائل میں فوجداری مقدمہ دائر کرنے کے طریقہ کار، گوشوارے چیلنج کرنے کی مدت اور عدالت کا دائرہ اختیار شامل تھے۔
مزید پڑھیں
لطیف کھوسہ کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے سزا معطلی کی درخواست پر ریاست کو فریق نہ بنانے سے متعلق پونے گھنٹے تک دلائل دیے۔ جس کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ آپ کا نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا ہے اب آگے چلیں۔ جس کے بعد تقریباً آدھے گھنٹے تک امجد پرویز ایڈووکیٹ نے گوشوارے میں اثاثے چھپانے سے متعلق دلائل دیے، جس کے بعد ایک بار پھر سماعت اگلے روز یعنی جمعہ 25 اگست تک ملتوی کردی گئی۔
لطیف کھوسہ نے ایک بار پھر سماعت ملتوی کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس دوران دونوں وکلا کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی تاہم چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ جمعے کو ڈویژن بینچ نہیں بیٹھتا تاہم اس کے باوجود ہم اسے جمعے کو سنیں گے۔
اسی روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
جمعہ 25 اگست کو سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے معاون نے عدالت کو بتایا کہ امجد پرویز کو ڈاکٹرز نے بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا ہے ان کی طبیعت ناساز ہے جس پر عدالت کا ماحول ایک بار پھر گرم ہوگیا اور عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے احتجاجاً روسٹرم چھوڑ دیا اور عدالت سے چلے گئے۔
عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کی تو کمرہ عدالت اور احاطے میں پی ٹی آئی کے وکلا نے شدید نعرہ بازی بھی کی۔
اسی دوران لطیف کھوسہ غصے میں کمرہ عدالت سے نکلے تو تیسری منزل سے نیچے آنے کے لیے لفٹ میں سوار ہوئے تو لفٹ یکدم خراب ہوگئی اور ایک گھنٹے کے بعد انہیں 2 درجن سے زائد وکلا اور صحافیوں سمیت سی ڈی اے کے عملے نے ریسکیو آپریشن کے ذریعے باہر نکالا۔
پیر کو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے ساڑھے 3 گھنٹے تک طویل دلائل دیے۔ ان کی جانب سے ایک بار پھر ریاست کو فریق نہ بنانے کا نقطہ اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے فوجداری مقدمہ دائر کرنے کا طریقہ کار، حق دفاع ختم کرنے اور سزا معطلی سے متعلق عدالتی نظیریں پیش کیں۔
امجد پرویز کے دلائل مکمل مکمل ہونے کے بعد لطیف کھوسہ نے مختصر جواب الجواب دیے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہاکہ تحریری حکمنامہ جاری کردیا جائے گا، تاہم بعدازاں عملے نے آکر بتایا کہ فیصلہ منگل کو دن 11 بجے سنایا جائے گا۔